فلامینکو رقص : اندلس کا نوحہ

تحریر : عاطف ملک
جولائی 2018، اندلس سپین سے واپسی کے سفر میں لکھا۔


سٹیج دھندلا تھا، روشنی کم تھی، جان بوجھ کرکم کی گئی روشنی۔  پیچھے ایک رقاص کی تصویر تھی، قدآورتصویر۔ سیاہ سوٹ کے نیچے سفید قمیص پہنے، بائیں ٹانگ پرکھڑا، دائیں ٹانگ مڑکربائیں ٹانگ کے گھٹنے پرآئی ہوئی، رقاص کے بازومڑے ہوئے، دونوں ہاتھ سینے سے کچھ نیچے، بائیں ہاتھ کی دوانگلیاں ایک جانب کواشارہ کرتیں اوردائیں ہاتھ  کا انگوٹھا اورشہادت کی انگلی کسی دورکہانی کی جانب اشارہ کرتیں۔ گردن مڑی ہوئی، با ئیں جانب کو دیکھتا، بال بکھرے ہوئے، چہرے پرعجب تاثر؛ تاثراور بے تاثرکےدرمیان۔ شاید غصہ، شایدغم، شاید امید، شاید شکست، شاید زندگی، شاید موت، سب کچھ اورکچھ بھی نہیں۔

 یہ فلامینکورقص ہےاندلس کا نوحہ۔

رقص شروع ہونےمیں ابھی کچھ وقت ہے، ماحول خوابناک ہے، ایک نامعلوم سی دھن بج رہی ہے، دھن--- کسی الفاظ کے بغیر۔ مگردھن کوکسی الفاظ کی ضرورت نہیں، وہ ویسے ہی کسی اوردورمیں لے جارہی ہے۔ وقت کی قید سے باہرلےجاتی دھن اوراس کےزیراثراحساس؛ گرد آلود احساس، کچھ ان ہونے کا خیال دلاتا احساس، صدیوں کا بوجھ لادےایک مضمحل احساس۔ 

فضا میں کچھ تھا یا شاید کچھ بھی نہ تھا، سب اندرکی فضا میں تھا۔

غرناطہ -- وادی الکبیرمیں پہاڑپربسا شہر، دورتک پھیلی سرسبزوادی، زیتونوں کے باغات بکھرے ہوئے۔ جھاڑی نما درخت، معمولی نظرآتا مگرپھل وہ کہ جس کا ذکرکائنات کی کتاب میں ہے۔ معمولی اورغیرمعمولی یکجا، معمولی کپڑے پہنے ذہن رسا دانشور، چھب چُھپاتی نار۔ سیدھ میں کھجوروں کےسراٹھائے درخت، قطاروں میں جیسےاونٹوں کا قافلہ، گردن اٹھائے، گلے کی گھنٹیاں بجاتے، اپنے خرام میں رواں دواں، دور وادی میں اترتےاورآگے چلتے حدی خواں کی آواز، سحر کا نشاں دیتی، بتاتی کہ منزل دور ہے۔۔۔ دور، بہت دور، سفرابھی جاری ہے۔ کھجورجواس وادی الکبیرمیں اجنبی شجرتھا۔ اندلس کی سرزمین میں ایسا پیوند ہوا کہ آج اس سرزمین کےحسن کا نشان ہے۔ ایک بے وطن نوجوان اُسے اس اجنبی زمین میں لایا تھا۔ صدیوں قبل وہ نوجوان عبدالرحمن یہاں، اس دیارِغیراپنی جان بچاتےپہنچا تواس نےایک سلطنت کی بنیاد رکھی، اسی کھجورکے درخت کی مانند پرشکوہ۔ آٹھ سوسال کی حکومت کے بعد نشان کے طورپر پُرشکوہ عمارات باقی ہیں یا پُرشکوہ کھجور کے درخت۔

ہوا خنک ہے، وادی میں بہتی ہوا، آہستہ، بہت آہستہ، کئی صدیوں کا بوجھ اٹھائے، الحمرا کی خوبصورتی کوساتھ لیے، جھروکوں، دالانوں، باغات، ستونوں، فانوسوں، چلمنوں کا حسن اپنے ساتھ لیے، خوبصورتی اس ہوا میں پوشیدہ ہے۔ جوان بیوہ کی خوبصورتی؛ حسن اورحزن دونوں کوساتھ لیے۔ ہوا خنک ہے، خنک، روح تک اترتی خنک۔

 غرناطہ میں دریا ئےدرو وادی میں اترتا جاتا ہے۔ الحمرا سے اترتا ہوا، تیز خرام۔ دریا جس کوموڑا گیا، صدیوں قبل ایسے موڑا گیا کہ انسان کی صناعی نظرآجائے، حسنِ بے پروا آشکار ہوجائے۔ پہاڑ پربنے باغات کے تختے، گھروں کے درمیان بنے حوض، انکے درمیاں بنےفوارے جو کہ دریا کے قدرتی بہاو کے استعمال سے چلتے تھے۔ حسن تھا، صناعی تھی، ذہانت تھی، تخلیق تھی۔

دریا بہہ رہا ہے، تیز خرام۔ دریا ئے درو کےکنارےکیا کیا نہ داستانیں پروان چڑھیں۔ اس کے کنارے بنی حویلیوں  کے جھروکوں سے کیا غزال آنکھیں نہ جھانکیں۔  کیا تہذیب اس دریا نے نہ دیکھی۔ کیا کیا دستکاریہاں نہ پہنچے، کیسے کیسے ہنرمندوں نے اپنا کمال نہ دکھایا، کیسے کیسے ریاضی دان، فلسفی، باغبان، مغنی،معماراس ک کناروں پر نہ چلے----- اورپھرخوشبوکی طرح بکھر گئے، چہارسو۔ اُن سب کی خوشبو وادی الکبیرکی ہوامیں ہے۔ ان مغنیوں کے نغمے ابھی بھی کانوں میں سرگوشی کرتے جاتے ہیں۔ میں یہیں تھا، یہیں۔ اے گھرلوٹنے والےمسافر، میں یہیں تھا۔ آ میرے پاس بیٹھ، میرا نغمہ سن، میرا دف صدیوں سے خاموش ہے، اسے تیرا انتظار تھا۔ خوش آمدید، اے میرے بیٹے خوش آمدید ۔

پانی پتھروں سے ٹکراتا ہے، وہ پتھرجنہوں نے کئی دوردیکھے۔ وہ دوربھی جب دریا کا خون سے اٹا پانی اُنہیں سرخ رنگ کر گیا، کٹے سراُن سے ٹکرا کررکے رہے۔ اور وہ دور بھی دیکھا جب اُس کے پانی سے آٹھ سو سال سے رہتی نسل کو بپتسما کر کے بدلا گیا، جان کے مول۔ گرجوں میں بڑے پیالوں میں کھڑی ننگی عورتیں؛ سہمی، خوفزدہ، پتھرائی آنکھوں سے کھڑی اوران پرڈالا جانے والا پانی، بپتسما کی رسم ادا کرتا، جان کی ضمانت دیتا۔ دریا ئےدرو کا پانی تیزی سے بہتا ہے، ان یادوں سے چھٹکارا پانے کی ناکام کوشش کرتا۔ بہتا، تیزی سے بہتا، مگرخون کی باس اب بھی اس کے پانی میں ہے۔ پتھرائی آنکھوں کاعکس آج بھی اس کے پتھروں میں ہے۔

صدیوں سے بسےغرناطہ کی ایک گلی میں واقع اس کلب میں یہ فلامینکو رقص بس شروع ہوا چاہتا ہے۔ سٹیج کےساتھ کا دروازہ کھلا اورگلوکار، رقاص اورسازندہ اندرداخل ہوئے۔ گلوگاردرمیانی عمرکا شخص ہے، کاندھوں تک لمبے بال، سر کے درمیان سے نکلا چیر۔ متناسب داڑھی چہرے کوحسن بخشتی، رنگ گورا اورآنکھیں بڑی بڑی۔ وہ خوبصورت ہے، وادی الکبیر کے حسن کی مانند۔  پراُس کی آنکھوں میں اداسی ہے، گہری اداسی، وادی الکبیرکی وسعت کی اداسی۔ مسافرکا دل اُس کی طرف کھنچتا ہے، بے سبب، بےارادہ، بےقابو۔ کیا خبرکہ وہ آٹھ سوسالہ حکمران نسل کی ایک گم شدہ نشانی ہو، اُسکی آنکھوں میں کسی پتھرائی آنکھوں کاعکس ہے، خوفزدہ، سہمی، پتھرائی آنکھوں کاعکس۔

 سٹیج کےایک کونےمیں کرسی پڑی ہے، گٹارلیےسازندہ اُس پر بیٹھ گیا، گلوکار سازندے کے پیچھےکھڑا ہے جبکہ رقاص سٹیج کے دوسرے کونے پرجاکھڑا ہے۔ رقاص، ایک پتلادبلا نوجوان، لمبی لمبی قلمیں، گالوں کےدرمیان تک آتی قلمیں، ستواں ناک ۔ کھڑا ہے، ایک بت کی مانند کھڑا۔ سراونچا کیے، سیاہ سوٹ کے نیچےسفید قمیص پہنے، دورکہیں دیکھتا، بےحس، دورکہیں، بہت دوردیکھتا۔

سازندے نےگٹارکی کھنچی ہوئی تاروں کوچھیڑا، ایک ہلکی لے سنائی دے رہی ہے۔ گلوکارتالی بجانا شروع ہے، دونوں ہتھیلیوں پرمختلف مقامات پرہاتھوں کے ٹکرانے سےاٹھتی مختلف آواز۔ گلوکارنغمہ گارہا ہے۔ نغمہ جوسمجھ میں نہیں آتا، مگروہ اپنی آوازکے زیروبم اورلکڑی کےفرش پراپنےبھاری جوتوں کی ایڑیاں بجا کرایک آوازپیدا کررہاہے، ایک ربط کی آواز۔ گٹاربجانے والےنے بھی تاروں کےساتھ ساتھ گٹارکی لکڑی پراُسی ربط سے ہاتھ مارنا شروع کردیا ہے۔

گلوکار کی آواز ہلکی سے بلند ہوتی ہے، بلند مگر دور سے آتی آواز۔ وادی الکبیر کے پھیلاو کی آواز، زیتون کے باغات سے گذرتی آواز، کھجوروں کے درختوں کو چھوتی، وادی میں گونجتی آواز، ہلکی سسکی سے اونچا بین ڈالتی آواز، گم گشتہ نسلوں کا ماتم کرتی آواز، میناروں سے گم شدہ اذانوں کی آواز --- مینارجن کی بلندیوں سے اذان وادی میں گونجتی تھی، جہاں سے اب گرجوں کی گھنٹیوں کی آوازبلند ہوتی ہے۔ مسجدیں جو مسمار ہوگئیں، بچ گئیں توگرجوں میں تبدیل ہوئیں، میناروں پر  گھنٹیاں لگا کرانہیں بھی بپتسما کردیا گیا۔ گلوکارکی آوازمیں کئی گم کردہ صدائیں ہیں۔ مسافراسکی آوازکے ساتھ ہے، الفاظ کےمعانی سےعلیحدہ ہوکر، اس آواز کے ساتھ ، وادی کے درمیان سے گذرتی تیز ہوا کی آواز کے ساتھ ۔

ساتھ ساتھ ہاتھ ٹکراتے ہیں، تالی آہستہ ایک ربط میں ہے، ردھم میں اٹھتی آواز، ایک سسکی، پوری وادی میں پھیلتی ایک سسکی۔ گلوکار کے پیرلکڑی کے فرش پرآہستہ سے بجتے ہیں اورتالی ہم آواز ہے۔ یہ غرناطہ کی گلیوں کےسرمئی پتھروں پرآہستہ سے چلتے کسی گھڑسوارکےقدموں کی آواز ہے۔ آواز کہ بتلاتی ہے کہ وہ ایک دور کے معرکے سے واپس آیا ہے۔ معرکہ، ایک تھکا دینے والا معرکہ--- معرکہ جس میں اُس کے ساتھی مارے گئے ہیں۔ اپنے سوارکی طرح اُسکا گھوڑا بھی تھکا ہے، آہستہ قدم اٹھاتا، گلی کے بےترتیب پتھروں پرقدم رکھتا، تھکن بتلاتا۔ اُس کےسموں کی آوازغم انگیز ہے، ساتھ بہتی ہوا بھی غم انگیز ہے۔ گلوکارکی لے بھی غم انگیز ہے۔کہیں روح میں دور اترتی ہوئی۔ غم ہےمگر وہ ہارا نہیں، وہ جنگجوابھی ہارا نہیں۔

رقاص بھی اب سٹیج پر ہے، اس کے ہاتھ سرسےبلند ہیں، ایک دوسرے سے جڑے ہوئے۔ اسکا چہرہ بےتاثرہے، بے رنگ، بے جذبات، اُسکی آنکھیں کہیں دوردیکھتی ہیں۔ رقاص کے پیر بھی اب لکڑی کے فرش پر بجنے لگے، یہ گیت کی لے سے ہم آہنگ ہیں۔ سسکیاں بھرتی آواز، تھکے گھوڑے کے نعلوں کی گلی کے پتھروں سے ٹکراتی آواز، گلوکارکی کہیں دورسےآتی ہلکی آواز، زباں نہ رکھتی ہوئی ہم آہنگ تالی۔ ہتھیلیوں کی مختلف جگہوں سے ٹکرا کراٹھتی آواز، رقاص کےایڑیوں کی فرش سے ٹکرا کراٹھتی آواز، سب مل کرایک دوسرے جہاں میں لے جاتے ہوئے۔

اچانک گلوکارکی آوازبلند ہوگئی ہے۔ یہ کیا ہے؟ یہ معرکے کا اختتام ہے کہ معرکہ کا آغاز۔ بلند، حلق کی تمام طاقت سے نکلتی آواز۔ معرکےکا وقت آگیا ہے۔ بہادرو، اٹھ کھڑے ہو۔ ہاتھ بجنےلگتے ہیں تواتر سے، آوازاونچی ہے۔ تالی سے بجتی آوازتیزہے، رقاص کے پیروں سےاٹھتی آوازتیزہے۔ یہ میدانِ جنگ ہے، سرپٹ دوڑتے گھوڑوں کی آواز، زرہ بکتروں سے اچٹتی تلواروں کی آواز، وادی میں گونجتی تیزہواکی آواز۔ یہ گھڑی بہادروں کی گھڑی ہے۔ رقاص کے تن میں بے چینی ہے، تیزی سے دائیں کوگھومتا، پھربائیں کوگھومتا۔ اُس کے جوتے لکڑی کےفرش پربج رہےہیں، دیوانہ وار، کبھی پنجے پر، کبھی ایڑی پر۔ جسم میں پارہ ہے، بھڑکتی آگ ہے۔ کھڑکھڑ کرتےجوتے، ہاتھوں سے بجتی تیزتالیاں، تیزی سے بجتا گٹار۔ پیرآگے پیچھے زور سے زمین پر لگتے۔ ایک پیرزمین پرمارا، اوردوسرا فوراً اس کےساتھ ہی تیزی سے زمین سے ٹکرایا۔ آوازبلند ہے، رقاص کے چہرے پرجوش ہے۔ یہ رقص نہیں اندلس کی تاریخ ہے۔

 تالیاں تیزہیں۔ رقاص کے پیرمسلسل زمین سےٹکرا کرآوازپیدا کررہے ہیں۔ اُس کی پیشانی پسینے سے شرابور ہے۔ اُسکا بےتاثرچہرہ اب جوش کی تصویر ہے۔ وہ کبھی آگے بڑھتا ہے، کبھی پیچھے جاتا ہے۔ کبھی تیزی سے چکرگھومتا ہے۔ اس کے ہاتھ کبھی تالی بجاتے ہیں، کبھی چٹکی بجاتے ہیں۔ یہ چٹکی بھی ایک ربط میں ہے، تیز سےتیز تر۔ گلوکار کی آواز بلند ہے، اُسکے گلے کی رگیں نظرآرہی ہیں۔ اُسکی آنکھیں بند ہیں، وہ بھی تصورمیں میدانِ جنگ میں ہے۔ 

اچانک گلوکار کا گیت رک جاتا ہے۔ رقاص بھی رک گیا ہے۔گٹارکی آواز بند  ہے۔ معرکہ ختم ہوا۔ اب گرے بہادروں کو دفنانے کا وقت ہے۔

گیت پھرشروع ہے، یہ فتح کا گیت ہے، یہ غم کی آواز ہے۔ گلوکارکی آوازبلند ہوتی ہے، یہ خوشی کا پیام لاتی ہے۔ اُسکی آواز نیچےجارہی ہے، یہ غم کی آواز ہے، بچھڑے ساتھیوں کو دفنانے کی گھڑی۔

غم اورخوشی ساتھ ساتھ ۔ یہ وادی الکبیرکی آواز ہے۔ الحمرا کےمحل کی صناعی، اُسکی خوبصورتی کا فخر، اسکے باغات کی ہریالی، انکی خوشبو، اُسکی بہتی نہروں کی صناعی، اُسکے بہتے جھرنوں کی آواز--- یہ فخر ہے۔

یہ مسجدِ قرطبہ کے ستونوں کا رنگ ہے، سرخ۔ یہ ماتم ہے، درد ہے، یہ نسل ہا نسل کا درد ہے، روح کےاندرکا درد ۔ درد جس کا کوئی مداوا نہیں۔ قرطبہ کی مسجد کے ستونوں کے درمیان پھرتی ہوا کا ماتم، سرپھری ہوا کا ماتم ۔ اُس مسجد کا ماتم جس نےصدیوں سےاذان کی آوازنہیں سنی، جس کا فرش ہاتھوں کی ہتھیلیوں اور پیشانیوں کے لمس کوترس گیا۔ یہ کئی نسلوں کا ماتم ہے، مارد ی گئی نسلوں کا ماتم، زندہ بچ جانے والی نسلوں کا ماتم، نسلیں جنہیں زندگی یا مذہب میں سےایک کوچننا تھا۔ وادی الکبیرمیں پھرتی ہوا کا ماتم۔ دریا ئے درو  میں بہتے پانی کا ماتم ۔ یہ سب ماتم اس رقص میں شامل ہیں۔ 

 صدیاں گذر جانے کے بعد آج بھی الحمرا کی دیواروں پر لکھا نظرآتا ہے، "ولاغالب الا اللہ "، کوئی فاتح نہیں مگر اللہ ۔ پیام ابھی زندہ ہے۔ سازابھی خاموش نہیں، دھن ابھی جاری ہے۔ گٹارکی کھنچی تاروں پر پھرتی انگلیاں بتارہی ہیں کہ لے ابھی جاری ہے، رقص ابھی ختم نہیں ہوا۔ ہوا ابھی بھی بہہ رہی ہے، گھوڑوں کے سموں کی آواز آرہی ہے، تھکی ہوئی، آہستہ۔ لے تیز ہوگی، ایک دن لے تیز ہوگی، یک دم رقص شروع ہوگا؛  والہانہ رقص، دیوانہ وار رقص، بےجذبات چہروں کو زندہ کرتا رقص، کن کا نعرہ لگاتا رقص۔ لےمدہم ہے، مگر ساز خاموش نہیں۔

 مسافر سفر میں ہے اوردیکھ رہا ہے- دورافق میں اسے لکھا نظر آرہا ہے،  "ولاغالب الا اللہ" ۔

" الحمرا  کے محل میں لکھا "و لا غالب الا اللہ
فلامینکو رقاص
فلامینکو ناچتے رقاص کی قد آور تصویر

نوٹ:
اوپرکی تینوں 
تصاویرمصنف نے کھینچی ہیں۔  

ازابیلا اور فرٹینینڈ کے مقبرے میں قدآور مجسمے، درمیانی تصویر میں ایک مسلمان عورت کو بپتسما کر کے عیسائی بنایا جارہا ہے۔ ایک نوجوان برہنہ عورت، اپنی آنکھوں میں یاس، فریاد، دکھ لیے زندگی کی خاطر مذہب بدلنے کی تقریب یا پھر تذلیل میں۔ 
 کیونکہ اس مقبرے میں تصویر کھینچنے کی ممانعت تھی، سو یہ تصویر کتاب
Granada and thee Alhambra, Art, Architecture, History by Rafael Hierro Calleja
کے صفحہ نمبر 163 سے  لی گئی ہے۔


Copyright © All Rights Reserved :
No portion of this writing may be reproduced in any form without permission from the author. For permissions contact:
aatif.malikk@gmail.com


Comments

Popular posts from this blog

Selection of Private Hajj Operators: Considerations

کیااتفاق واقعی اتفاق ہے؟

اشبیلیہ اندلس کا سفر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک تصویری بلاگ