آسٹریلین رضاکار ڈاکٹر اور شہید الاقصی ہسپتال غزہ

تحریر: عاطف ملک

پچھلے ہفتے دو آسٹریلین ڈاکٹروں  سے غزہ کے ایک ہسپتال کے مشاہدات سننے کا موقع ملا۔ دونوں جولائی 2024  میں   واپس آئے ہیں۔ ان میں سے ڈاکٹر جروم، آسٹریلین سفید فام اور غیر مسلم ہیں جبکہ ڈاکٹر بشری فلسطینی النسل مسلم ہیں۔ دونوں  نے شہید الاقصی ہسپتال، دیرالبلح میں دو ہفتے خدمات سر انجام دیں۔   کھجوروں کے باغات کی بنا پر  نام لیتا دیرالبلح   ( معنی کھجوروں کی خانقاہ) غزہ شہر سے 14 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ شہید الاقصی ہسپتال اقوام متحدہ کی فلسطینی پناہ گزینوں کے ادارے  اور مختلف طبی فلاحی ادارے کے تعاون سے چلتا ہے۔   ان ڈاکٹروں کے واپس آنے کے بعد 4 اگست 2024 کو الاقصی ہسپتال کے صحن میں میں پناہ گزین خیموں پر اسرائیلی فضائی حملے سے ہلاکتیں ہوئیں۔ یہ مضمون ان ڈاکٹروں کی بیان کردہ  تفصیلات کا خلاصہ ہے۔

دیر البلح غزہ میں زندگی
دیرالبلح میں زندگی،جنازے، چارجنگ کی مشکل، سولر پینل، خیمے

غزہ میں داخل ہونا بہت مشکل ہے، مصر کی جانب سے رفح داخلہ بند ہے، سو اسرائیل سے ہی داخل ہوا جاسکتاہے۔ کئی ماہ کی کوشش کے بعد ہمارے ویزے لگے تھے جس میں اقوام متحدہ کے ادارے کی کوشش بھی شامل تھی، مگرغزہ میں داخلے سے قبل ہمیں مختلف جگہوں پر بلاوجہ  روک لیا جاتا رہا اور  بے سروپا سوالوں کے جواب مانگے جاتے ، مثلاً تمہارے دادا کے دادا کا کیا نام تھا؟ ایک جگہ ہمیں تین گھنٹے بٹھائے  رکھا گیا اور  ہم مجرموں کی مانند سوالات کا سامنا کرتے رہے۔ مقصد یہ  تھا کہ اتنی مشکلات کھڑی کی جائیں کہ ہم تنگ  ہو کر غزہ جانے سے باز آجائیں۔  تمام سرکاری شرائط پوری کرنے کے باوجود یقین سے نہیں کہہ سکتے تھے کہ  ہم غزہ میں داخل ہو جائیں گے۔ہم چار ڈاکٹروں کے ویزے لگے تھے مگر  ہمارے دو ڈاکٹروں کو  داخلے کی اجازت نہ دی گئی ۔ ایک بات واضح تھی کہ اسرائیل تمام اجازتوں کے باوجود فلسطینی النسل ڈاکٹروں کو غزہ میں داخلے سے روک رہا ہے۔   غزہ کے مقیم لوگ جب  ایسے ڈاکٹروں سے ملتے جو کہ مغربی ممالک میں رہائش پذیر ہیں مگر اس مشکل وقت اپنےہم وطنوں کی طبی خدمت کے لیے خطرناک ترین حالات میں  واپس آتے ہیں تو یہ ایک جوش اور ولولے کا سبب بنتا ہے۔ اسرائیل اس کو پوری حکومتی قوت سے روک رہا ہے۔

ہمیں بہت کم نقد رقم غزہ لے کر جانے کی اجازت  دی گئی۔مصر  کی جانب کے  رفح داخلے سے ہر مسافر دس ہزار امریکی ڈالر لے کر جاسکتا تھا، مگر اسرائیل کی جانب سے اب  کسی بھی مسافر کو صرف تین ہزار امریکی ڈالر لے کر جانے دیے جارہے ہیں۔ یہ رقم انفرادی قیام کے لیے ناکافی ہے، اور بہت مشکل ہے کہ آپ کسی اور کی مالی مدد کر سکیں۔ رقم  اور اشیاء کے داخلے کو غزہ میں  روک کر اسرائیل بھوک اور مہنگائی  کو بمباری کے ہمراہ  نسل کشی کے ہتھیار کے طور پر استعمال کررہا ہے۔

داخلے کی چیلنج
غزہ میں داخلے کی مشکلات

ہمارے طبی سامان کو بھی  روک لیا گیا۔ ٹیکے لگانے والی سوئیاں اور سانس لینے کے ٹیوبس کے ساتھ ساتھ شکر  بھی ضبط کرلی گئی۔ ہم شکر لے کر جارہے تھے کہ چینی غزہ میں دستیاب نہیں ہے اور  بعض حالات میں مریضوں کے لیے  ضروری ہے۔ اس کے علاوہ ہمارے سامان میں  سے  پروٹین کے ماخذسوکھے گوشت کے پیکٹ  بھی چھین لیے گئے۔  ہم غزہ میں اقوام متحدہ کی گاڑیوں میں داخل ہوئے۔ یہ آرمر گاڑیاں ہیں۔ ہم نے آج تک ایسی گاڑیوں میں سفر نہیں کیا تھا۔ ان میں سفر ایک پریشانی اور اضطراب لاتا ہے۔ پھر آپ باہر دیکھ رہے ہوتے ہیں، تباہ شدہ عمارتیں ، ٹوٹی سڑکیں، جلی ہوئی گاڑیاں، جلے ہوئے درخت ، ہر طرف تباہی ہی تباہی ہے۔ یہ سب آپ کو بے چین کر رہے ہوتے ہیں۔ اگر کوئی عمارت کھڑی بھی نظر آرہی ہے تو وہ محفوظ اور رہائش کے قابل نہیں ہے۔ جب ہم گاڑیوں سے باہر نکلے تو اسرائیلی فوجی چاروں جانب تھے۔ رائفلیں تانے ان کے چہروں پر ہمارے لیے تحقیر تھی، تم یہاں کیوں آئے ہو؟  ان کے لیے ہم ڈاکٹر نہیں بلکہ قابلِ نفرت   لوگ تھے۔ یہ سب  ہم میں اضطراب لایا۔  مگر ہمیں علم تھا کہ یہ آغاز ہے، اور آگے ہمیں بہت کچھ دیکھنا اور محسوس کرنا ہے۔  

غزہ میں  چوبیس گھنٹے کا شور ہے، دن رات ، ہر وقت، چوبیس گھنٹے کا شور ہے۔  آپ اور میں یہاں اس کا تصور بھی نہیں کرسکتے کہ یہ کتنی بڑی اذیت ہے۔ بم پھٹ رہے ہیں، فائرنگ کی آوازیں آرہی ہیں۔  آپ کو کچھ علم نہیں کہ یہ کدھر ہو رہا ہے۔ کتنی ہلاکتیں ہیں، کتنے زخمی ہیں، کچھ پتہ نہیں۔ آپ اِدھر ہیں  اور کہیں اُدھر کچھ  لوگ مر رہے ہیں۔  آپ کہیں گے کہ بم اور فائرنگ کی آوازیں اذیت ناک ہیں، ان سے بڑھ کر تکلیف دہ  دن رات آسمان پر اڑتے   مختلف ڈرونز  کی آوازیں ہیں۔ ایک یکساں مقدار کی آواز، مسلسل چلتی، پس منظر میں اتنی مسلسل چلتی کہ آپ اس کے عادی ہو جائیں۔ مگر یہ آپ کے اعصاب پر طاری ہو جائے گی۔ یہ آواز نہیں یہ ہلاکت کا ہرکارہ ہے۔ یہ مسلح  ڈرون موت کا روپ ہیں۔   ان سے فائر شدہ میزائل بچوں، عورتوں، بوڑھوں، نوجوانوں، خیموں، گھروں، کاروں ، گدھا گاڑیوں کسی میں فرق نہیں کرتا۔ یکساں مقدار کی آواز کسی وقت بھی بم  کی آواز میں تبدیل ہو سکتی ہے۔بربادی ، تباہی ، ہلاکت سب اس یکساں مقدار کی آواز کے ہمراہ ہے۔  چوبیس گھنٹے موت کی آواز اور غزہ کے رہنے والے دس ماہ سے  ان آوازوں کے ساتھ ہیں۔ شروع میں ہمیں شور کے اثرات کا اندازہ نہ ہوا، مگر جب کبھی ہم ایسی جگہ پر پہنچے جہاں شور نہ تھا مثلاً آپریشن تھیٹر تو ہمیں علم ہوا کہ خاموشی کتنی بڑی نعمت ہے اور مسلسل شور کتنی بڑی اذیت ہے۔ ان اذیت زدہ آوازوں  کے اثرات   جانے والے نہیں، بحثیت ڈاکٹر ہم سمجھتے ہیں کہ سالہا سال اس نسل کشی کے اثرات انفرادی اور اجتمائی سطح  پر سامنے آتے رہیں گے۔
گرمی بھی ایک بڑا مسلہ تھا۔ تپش آلود گرمی  ہر جگہ موجود تھی۔ بجلی نہیں تھی، پنکھے اور ایر کنڈیشنر کام نہیں کر رہے تھے۔ اگر ہسپتال میں کسی کمرے میں ایر کنڈیشنر کبھی کام کررہا ہوتا تو یہ غیر معمولی بات ہوتی۔ خیموں میں رہنے والے کیسے بغیر پنکھوں کے گذارا کررہے تھے، یہ سوچا نہیں جاسکتا۔ نائیلون کے بنے خیموں میں مائیں، بچے بغیر کسی پنکھے اور  ہوا کی گردش  کے  پچاس ڈگری سینٹی گریڈ کی  گرمی میں رہ رہے ہیں۔ ہم نہیں سمجھ سکتے کہ ایسے کیسے زندہ رہا جاسکتا ہے، مگر لوگ ان حالات میں جی رہے تھے۔

چیلنج
غزہ میں مشکلات

اس کے علاوہ پورے غزہ میں صاف پانی میسر نہیں ہے۔  ہم آسٹریلیا سے گئے ڈاکٹر نقد ڈالر ادا کرکے صاف پانی خرید سکتے تھےمگر عام آدمی کے  لیے پانی خریدنا استعداد سے  باہر تھا۔  غزہ میں پانی صاف کرنے کے پلانٹ اسرائیلی فوج نے دانستہ  بمباری کرکے تباہ کردیے ہیں۔  یہ صورتحال الفاظ میں نہیں بیان ہو سکتی۔ بجلی نہ ہونے کی وجہ سے حالات مزید ابتر ہو گئے ہیں۔     اگر جنریٹر  ہیں بھی تو وہ ایندھن کی عدم دستیابی کے باعث نہیں چل سکتے۔  ہسپتال میں  اگر بجلی ہو تو ہر پوائنٹ پر  مشینیں یا پاور بینک چارجنگ کے لیے لگے ہوتے تھے، بجلی کو کوئی پوائنٹ خالی نہ ملتا تھا۔ سولر پینل استعمال کیے جارہے ہیں۔ لوگوں کے لیے اپنے فون چارج رکھنا مشکل ہیں۔  پاور بینک اور بیٹریاں اب کرنسی کے طور پر استعمال کی جا رہی ہیں۔

ہسپتال میں بجلی اکثر میسر نہیں ہوتی۔ ہم نے  وہاں کئی آپریشن ٹارچوں کی ناکافی روشنی میں کیے ہیں کیونکہ کوئی اور صورت نہ تھی۔ آسٹریلیا میں رہتے ہم کبھی ایسے حالات میں آپریشن کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے ۔ آپ سوچ نہیں سکتے کہ غزہ میں طبی عملہ کن حالات میں کام کررہا ہے۔ طبی سامان ناکافی ہے، مشینیں خراب ہیں،  ادویات  نہیں ہیں، مسلسل بم باری ہو رہی ہے، بم باری کے زخمیوں کے  متعدد اعضاء  جسم سے الگ ہوتے ہیں جن کا علاج طبی عملے پر ذہنی دباؤ لاتا ہے، نیز عملے کے اپنے خاندان کے لوگ مارے جارہے ہیں۔  دس ماہ سے وہ مسلسل انہیں حالات کا سامنا کررہے ہیں۔خوف ہر جانب پھیلا ہے،  بھوک اور پیاس اس کے علاوہ ہیں۔ ان خراب حالات میں بھی    وہ چوبیس گھنٹے کام کرتے ہیں۔ لمبے  اوقاتِ کار کے ساتھ ساتھ ان کے لیے آرام کی کوئی جگہ اور  ماحول نہیں ہے۔   غزہ کے طبی عملے کے لیے  برن آوٹ کا لفظ استعمال کرنا بہت چھوٹا ہوگا۔
ڈاکٹر جروم کے مطابق زبان نہ جاننا بھی ان کے لیے ایک مسلہ تھا۔ وہ زخمیوں سے بات نہیں کرسکتے تھے، زبان کی لاعلمی کی بنا پر وہ زخمیوں  کی حالت کو پوری طرح نہیں جانچ سکتے تھے۔ اشاروں کی زبان میں وہ پوچھتے اور سمجھنے کی کوشش کرتے رہے۔ مقامی طبی عملہ  اپنے طور پر ترجمہ کرنے میں مددگار تھا مگر اُن پر کام کا بہت زور تھا۔ ایسے میں اکثر اوقات خود ہی سمجھنا اور فیصلہ کرنا ہوتا تھا۔ ان کی  طبی ٹریننگ میں مریضوں سے  اُن کی حالت کو سمجھ کر علاج کا تعین کیا جاتا ہے، سو اس بنا پر زبان سے لاعلمی ذہنی پریشانی اور دباؤ کا باعث بن رہی تھی  ۔   

غزہ ہسپتال میں کام میں مشکلات

طبی سامان بالکل ناکافی تھا۔ ہمارے پاس آپریشن تھیٹر کے لیے جراثیم کش گاؤن بھی میسر نہیں تھے۔ آپ خیال نہیں کرسکتے کہ ہم باورچی خانے میں پہنے جانے والے گاؤن پہن کر آپریشن کررہے تھے۔  دستانے، گاؤن  آپریشن کے بعد پھینکے نہیں جاتے تھے بلکہ دھو کر دوبارہ استعمال کیے جارہے تھے۔ یہ طبی  اصولوں کی صریحاً خلاف ورزی ہے مگر ہمارے پاس کوئی  اور چارہ نہ تھا۔ سامان کی فراہمی کے علاوہ سامان  کی فہرست نامکمل رہتی تھی، کیا آ رہا ہے کیا استعمال ہورہا ہے، اس کا ریکارڈ رکھنا ممکن نہ تھا۔ طبی عملہ نامساعد حالات بلکہ غیر انسانی حالات میں  اپنی بساط سے بڑھ کر کام  کررہا تھا ۔ غزہ میں  انفکشین ایک بہت بڑا مسلہ ہے۔  پولیو کا وائرس تیزی سے پھیل رہاہے، لوگ ہیپاٹیٹس سے مر رہے ہیں۔ میں نے آسٹریلیا میں آج تک ہیپاٹیٹیس اے سے کسی کو مرتے نہیں دیکھا مگر غزہ میں یہ عام ہے۔  لگاتار بمباری نے صفائی کے   نظام کو تباہ کردیا ہے، ہسپتال کے باہر گندہ پانی اکٹھا ہے اور یہ بیکٹیریا، وائرس  اور بیماریاں پھیلنے کی آماجگاہ ہے۔

ایمرجنسی ٹراما کے کمرے میں تین بیڈ، دو مانیٹر، دو ٹرالیوں  کے ساتھ ہم مسلسل دس سے بارہ شدید زخمیوں کو دیکھتے تھے۔  یہ دو چار ہفتوں کی بات نہیں ہے، بلکہ دس ماہ سے یہی صورتحال ہے۔طبی عملہ کام کررہا ہے، انسانی بساط سے بڑھ کر کام کررہا ہے، ظالمانہ ماحول میں کام کررہاہے۔ آپ کو اکثر کسی  کونے میں، فرش پر پڑا ،  آنکھیں بند کیے، اونگھتا سٹاف نظر آئے گا۔  تھکن ان کے چہروں سے نظر آتی ہے مگر وہ اپنے فلسطینی بھائیوں  بہنوں کی مدد اپنی بساط سے بڑھ کر رہے ہیں۔ ان میں کئی مسلسل دن رات کام کرتے ہیں، گرتے ہیں، تھکن سے چور، خوف کے ماحول، بموں کی آوازوں، زخمیوں کی چیخ وپکار، اپنے عزیزوں کی لاشوں کے ساتھ ، بند ہوتی آنکھوں اور درد کرتے جسموں کے ساتھ  ، وہ کام کررہے ہیں۔  میں کبھی یہ سوچ نہیں سکتا تھا کہ    ہسپتال ایسے بھی کام کرتے ہیں۔ میں آسٹریلیا واپس آگیا ہوں، مگر  شاید زندگی بھر ان تکلیف دہ یادوں کا بار اٹھائے رکھوں گا۔

طبی سامان کی کمی

کسی بھی ہسپتال میں مختلف ڈیپارٹمنٹوں اور طبی ماہرین میں رابطہ اشد ضروری ہے، مگر غزہ  کے ہسپتالوں میں سٹاف کے ساتھ رابطہ میں رہنا تو مشکل تھا  بلکہ ہم آسٹریلیا میں اپنے خاندان سے بھی بات نہ کرپاتے تھے۔ انٹرنیٹ کی دستیابی  کم کم تھی، نیٹ ورک  تباہ ہیں، بجلی کی عدم دستیابی  کی بنا پر چارجنگ بھی نہیں ہو پاتی۔ ہم آسٹریلیا سے جاتے ہوئے  چھوٹے واکی ٹاکی لے گئے تھے جو لوکیشن بھی بتا دیتے تھے ( ان میں جی پی ایس آلہ لگا تھا) وہ ہمارے کام آئے۔ علم ہوا ہے کہ اب ایسے آلات غزہ کی سرحد پر ضبط کر لیے جاتے ہیں۔

ہم نے غزہ جانے سے قبل سوشل میڈیا پر اس جنگ کی تباہی کی ویڈیوز دیکھی تھیں، مگر وہ کچھ بھی نہیں ہیں۔ ہم نے سب سےزیادہ  تکلیف دہ اور غیر انسانی ظلم  جو دیکھا ہے وہ عورتوں اور بچوں کو  نشانہ بنانا ہے۔ یہ جنگ  کے نتیجے میں اتفاقیہ  زخمی  نہیں ہورہے  بلکہ انہیں  منظم طریقے سے نشانہ بنایا جاتا ہے۔ بچوں کے سروں کو نشانہ بنایا جاتا ہے، خواتین اور حاملہ خواتین کو دانستہ مارا جارہا ہے۔ غاصب صیہونی فوج کی جانب سے یہ نسل کشی کا ایک طریقہ ہے ۔

اس بہیمانہ ظلم میں  فلسطینیوں کا حوصلہ اور مذہب پر توکل ہمارے لیے حیران کن تھا۔   ہر فلسطینی کے پاس قرآن ہوتا ہے ، جو وہ موقع نکال کر پڑھ رہا ہوتا ہے۔ طبی عملہ برستی آگ اور کام کی زیادتی کے باوجود دن میں پانچ وقت  سجدہ ریز ہوتا ہے۔  ہمیں وہاں بچوں سے حوصلہ ملتا رہا ہے۔ بچے ان حالات میں بھی خوشی اور شرارت کا موقع پیدا کرلیتے ہیں۔ اس ناقابلِ بیان ظلم کے ماحول میں  ہمیں  کئی مسکراہٹیں   معصوم بچوں کی عطا کردہ ہیں۔  یہ بچے وہ ہیں جنہوں نے اپنے ماں ، باپ، بہن، بھائی اور عزیز رشتہ داروں کو کھو دیا ہے۔ ان میں سے کئی اپنے عزیزوں کو ڈھونڈ رہے ہیں۔ ہمارا دل روتا تھا کہ ہم ان کے لیے کچھ نہیں کرپارہےاور وہ ہمارا شکریہ ادا کرتے رہتے تھے۔  آپ کسی کے لیے کچھ نہ کر پائیں اور وہ آپ کا شکریہ ادا کرتا ہو، سوچیئے یہ کتنی تکلیف دہ بات ہے۔ ہسپتال میں آپ کو لوگ ملیں گے جن کے اعضا ء اس صیہونی بربریت کا شکار ہوئے، وہ معذور ہیں، ان کو کوئی سہولیات میسر نہیں، مگر پھر بھی آپ ان سے شکایت نہ سنیں گے، وہ  آپ سے مسکرا کر ملیں گے، آپ کا شکریہ ادا کریں گے، "سب اللہ کے ہاتھ میں ہے، اور ہم اس کے بندے ہیں۔ ہماری زندگی اور موت، ہماری آسانی اور مشکل سب اس کے جانب سے ہے۔ ہم اُس سے راضی ہیں اور دعا ہے کہ وہ ہم سے راضی ہو جائے"۔  یہ ایک عجب تجربہ اور منظر تھا  کہ  اس ناقابلِ بیان بربریت کے شکار ایسے موقع بھی دین سے تقویت لے رہے ہیں۔   آسٹریلیا سے جاتے ہمارے گمان میں بھی نہ تھا کہ ہم  ایسی انسانی  مزاحمت سے روشناس ہوں گے اور یہ ہماری  روحانی بیداری کا سبب ہوگا۔  فلسطینیوں کا مذہب اور خدا سے تعلق برستے بموں ، کٹے   اعضاء، ٹکڑے ٹکڑے لاشوں، بھوک، خوف   ، بیماری، تباہی سے قطع نظر مضبوط ہے۔ اور یہ دس ماہ کی کہانی نہیں ہے، فلسطینوں پر کئی دہائیوں اور نسلوں سے جاری یہ  مسلسل  جرم ہے۔ 

insight
غزہ میں طبی کام سے کیا دیکھا

یہ ظلم اقوامِ عالم کو نظر نہیں آرہا، اسلام فوبیا زوروں پر ہے۔  یہ حالات دیکھ کر ہمارا انسانیت پر یقین متزلزل ہے۔مگر یاد رکھیئے ہمیں بولنا ہے، سیاست دان اور حکمران  اپنے اغراض   کے غلام ہیں، مگر ہمیں بولنا ہے، یہ ہم پر فلسطینیوں کا  کم از کم قرض ہے۔ بولیں، ان طالب علموں کے ہمراہ بولیں جو  دنیا کے مختلف ممالک میں اپنی حکومتوں کو جگانے کی کوشش کررہے ہیں۔ بولیں،  ان اہل دل کے ہمراہ بولیں جو مختلف شہروں میں  فلسطین کے حق میں مظاہرے کر رہے ہیں۔  بولیں، ان  بے بسوں کے ہمراہ بولیں جو سوشل میڈیا پر اس ظلم  کا پردہ چاک کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔

  بولیں، بولیں، یہ ہم پر فلسطینیوں کا کم از کم قرض ہے۔

 

Copyright © All Rights Reserved
No portion of this writing may be reproduced in any form without permission from the author. For permissions contact:
aatif.malikk@gmail.com 
#AatifMalik, #UrduAdab, #Urdu,#عاطف-ملک


 

Comments

Popular posts from this blog

Selection of Private Hajj Operators: Considerations

اشبیلیہ اندلس کا سفر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک تصویری بلاگ

کفارہ