عید کی تصویر

 تحریر: عاطف ملک

عید الفطر دو ہزار بائیس کو لکھا

عید کے موقع پر احباب اپنی تصاویر شیئر کرتے ہیں، سو اس عید پر ایک لفظی تصویر پیش ہے۔

اس دفعہ عید کی نماز انڈونیشیوں کے زیرانتظام مسجد میں پڑھی۔ کچھ عرصہ قبل اس مسجد سے متعارف ہوا تھا۔ انڈونیشیا تبلیغ سے مسلمان ہوا تھا، وہ جو تاجر آئے انہوں نے اپنے معاملات سے دین کی تبلیغ کی۔ مذہب کے بارے میں انڈونیشین کے ہاں بڑی برداشت پائی جاتی ہے۔ ایسی برداشت کہ دوسری قومیتوں میں ناپید ہے۔اس کا پہلا تجربہ تب ہوا جب اس مسجد میں باجماعت نماز پڑھ رہا تھا کہ دیکھا کہ ایک موٹی تازی بلی آکر صفوں میں نمازیوں کے ساتھ جڑ گئی۔ التحیات میں بیٹھے تو گود میں چڑھ آئی۔ سلام پھیرا تو ایک صاحب اٹھے، مسکرائے اور بلی اٹھا کر باہر چھوڑ آئے۔ تھوڑی دیر بعد کوئی اور نمازی کمرہِ مسجد میں داخل ہوا تو دروازہ کھلنے کے ساتھ بلی دوبارہ اندر تھی۔ لوگوں نماز پر توجہ دیتے رہے اور پیچھے کچھ بچے بلی سے خوش ہوگئے۔ رب کی مسجد میں اس دن دو مخلوق صفوں پر خوش تھی۔

اس سال بھی ہمیشہ کی طرح دو دن عید کا اعلان تھا، ایک وہ جو کیلنڈر کے مطابق عید منا رہے تھے، دوسرے جنہوں نے چاند کے مطابق عید منانا تھی۔ انڈونیشیوں نے کیلنڈر کے مطابق عید منائی، مگر اپنی مسجد میں اگلے دن بھی چاند کے مطابق عید کی نماز کا انتظام رکھا، بلکہ ایسا انتظام کہ جی خوش ہو گیا۔ گاڑیوں کی پارکنگ سے لے کر صفوں اور ٹینٹ لگانے کے تمام انتظامات انڈونیشی رضاکار کر رہے تھے۔

نماز پڑھ کر باہر نکلے تو دیکھا کہ انہوں نے کھانے پینے کی میزیں لگا رکھی ہیں۔ سالاد کے ساتھ مرغ اور بکرے کے گوشت کے شوربے بھرے پتیلے رکھے ہیں۔ قیمے بھری ٹکیاں جنہیں انگریزی میں پائی کہا جاتا ہے، ٹرے میں سجی ہیں۔ بکرے کی چانپیں کوئلوں پر روسٹ ہو رہی ہیں۔ شربت اور پانی کے جگ بھرے ہیں۔ روایتی انڈونیشی مٹھائیاں ہیں، ایک طرف بچوں کے لیے لچھے بن رہے ہیں۔ ہر نمازی کو کھانے کو مدعو کررہے ہیں۔ سب کچھ مفت ہے۔ عجب لوگ ہیں یہ نہیں کہتے کہ تم نے کل ہمارے ساتھ عید کیوں نہ کی، نہ چاند کے متعلق کسی علمی یا بے عقلی بحث میں پڑ رہے ہیں۔ عید کو عید کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔

لچھے دیکھے تو یاد آگیا کہ بچپن میں چھٹی کے وقت سکول کے باہر لچھے والا اپنی ریڑھی کے ساتھ موجود ہوتا تھا۔ میٹھا لچھا تو اپنا ایک ذائقہ رکھتا ہی ہے، مگر لچھے کا بننا بھی ایک عجب منظر تھا۔ ریڑھی والا دائیں ہاتھ سے ایک چکر کو گھماتا جس کی وجہ سے اس کے سامنے کے بڑے برتن میں ایک چھوٹا پہیہ گھومتا اور اس میں سے دھویں کی مانند باریک اون کے ریشوں کی مانند لچھے کی تار نکلتی۔ کبھی پیلا رنگ، کبھی نیلا، کبھی نارنجی، اور کبھی یہ تمام رنگ آپس میں مل کر نکلتے۔ یہ تخلیق کار کا اختیار تھا کہ وہ کیسے رنگ نکال دے۔ زندگی کو بھی ایسا ہی پایا۔

انڈونیشی لچھے والے کے سامنے بچوں کی لمبی قطار تھی۔ دیکھا کہ تھک گیا ہے تو میں اور بیٹا آگے ہوئے کہ اب ہم کچھ لچھے بناتے ہیں۔

زندگی بڑی پُر پیچ ہے، آج کل لوگ اس کے پیچوں میں الجھ کر باہمی بدست و گریبان ہونے کے چکر میں ہیں۔ اس عید جانا کہ بے شک تار آپس میں الجھے ہوں مگر میٹھے ہوں تو زندگی بھی خوش ذائقہ رہتی ہے۔

یہ ہے میری اس عید کی لفظی تصویر۔
Copyright © All Rights Reserved :
No portion of this writing may be reproduced in any form without permission from the author. For permissions contact:
aatif.malikk@gmail.com  

#AatifMalik, #UrduAdab, #Urdu
#عاطف ملک

Comments

Popular posts from this blog

اشبیلیہ اندلس کا سفر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک تصویری بلاگ

کرٹن یونیورسٹی میں طالب علموں کی احتجاجی خیمہ بستی کا منظر

رزان اشرف النجار -------------زرد پھولوں میں ایک پرندہ