وہ اکثر مجھ سے کہتی تھی ریاضی کچھ سکھادو نا

یہ نظم انٹرنیٹ پر موجود ہے اور اس کے شاعر ساحل صاحب ہیں۔ عاطف ملک نے کچھ اپنے شعر اس نظم کے ساتھ جوڑے ہیں جو کہ نیچے نیلے رنگ میں لکھے گئے ہیں۔ مگر اس شاعری کا سہرا ساحل صاحب کے سر ہی ہے۔


وہ اکثر مجھ سے کہتی تھی ریاضی کچھ سکھادو نا

یہ سیٹوں کی تقاطع اور یونین کچھ بتا دو نا

یہ قالب اور الجبرا، یہ کیسے لاگ لیتے ہو

جمع تفریق اور تقسیم ضربیں کیسے دیتے ہو


مجھے بھی اپنی نسبت کا ذرا حساب دے دو نا

وہ اکثر مجھ سے کہتی تھی ریاضی کچھ سکھا دو نا


یہاں پہ مستقل کیا ہے؟ تغیر کس کو کہتے ہیں

منفی منفی سے یہ مثبت کیسے بنتے ہیں

یہ سوالوں کی مساواتیں تم کیسے بناتے ہو

سوالوں سے جوابوں کے خزانے چھین لاتے ہو


یہ ناطق غیر ناطق سے جدا کر کے دِکھا دو نا

وہ اکثر مجھ سے کہتی تھی ریاضی کچھ سکھادو نا


اِسے اہلِ ادب نے خشک تر مضمون بولا ہے

جو اس سے دل لگا بیٹھا، اُسے مجنون بولا ہے

کہا میں نے ریاضی کا بہت دشمن زمانہ ہے

ریاضی اِک تخیّل ہے، یہ شاعر کا فسانہ ہے


بولی میرے مجنون کوئی عشق کا نعرہ لگادو نا

وہ اکثر مجھ سے کہتی تھی ریاضی کچھ سکھادو نا


ابھی جاناں بتانے کو جذر مجذور باقی ہیں

کئی بلین ستاروں کے جہاں مفرور باقی ہیں

تیرے حُسن کا حساب پایا نہ کتابوں میں نہ خوابوں میں

مگر سُن لو کہ اِہلِ مصر ماہِر تھے حسابوں میں


ریاضی کی  تاریخ گہری ہے، ٹریلر ہی دکھا دو نا

وہ اکثر مجھ سے کہتی تھی ریاضی کچھ سکھادو نا


براہم گُپتا نے بنائی اِک سے نو گنتی و زیرو ہے

یہاں تو ارشمیدس ایریا ، حجم کا ہیرو ہے

ابھی فیثا غورث مثلث کا مسلہ بتائے گا

الخوارزمی دنیا کو پھر الجبرا پڑھائے گا


جو مشکل ہے یہ الجبرا تو کچھ آساں پڑھا دو نا

وہ اکثر مجھ سے کہتی تھی ریاضی کچھ سکھادو نا


کلائی پر تِری جاناں جو کنگن کھنکھناتے ہیں

یہی کنگن ریاضی کے بڑے سرکل بناتے ہیں

تِری زُلفوں کے بل تیری کمر کے ساتھ بنتے ہیں

جو گیلی ہوں تو دلکش پیرا بولک پاتھ بنتے ہیں


مِری زُلفوں سے جو بنتی ہیں شکلیں وہ بنادونا

وہ اکثر مجھ سے کہتی تھی ریاضی کچھ سکھادو نا


تِری آنکھ ریاضی اور فطرت کا اثاثہ ہے

ابرو تیرے آرک ہیں جن میں دائرہ اک شناسا ہے

تیری نظر کا زاویہ ہماری جاں سے گذرا ہے

یہ لامتناہی خط محبت کا ہمیں لے کے ڈوبا ہے


میری محبت کے سوال کا کوئی جواب دے دو نا

وہ اکثر مجھ سے کہتی تھی ریاضی کچھ سکھادو نا


چمکتی ہے تِرے ہونٹوں میں جو دانتوں کی مالا ہے

یہی وہ پہلی گِنتی تھی جسے انسان نے پالاہے 

تِرے آنچل کی ڈوری پر جو بندیا ہے ستارے ہیں

لہرائے تو پلینوں کے، سپیسوں کے نظارے ہیں


وہ بولی میں ریاضی ہوں مجھے خود میں چھپا لو نا

وہ اکثر مجھ سے کہتی تھی ریاضی کچھ سکھادو نا


تقسیم  ہے مجھ کو جو تو نے چاہ کے کر ڈالا

ریاضی بُھلائی ہے اور شاعر بنا ڈالا

ضربیں ہیں جو تیری آنکھوں نے مجھ پر لگائی ہیں 

نہ گن کہ  تیری میری محبت لامتناہی ہے 


کہا اُس نے کہ کچھ مصرعے میرے شاعر سنا دو نا

وہ اکثر مجھ سے کہتی تھی ریاضی کچھ سکھادو نا


میری جاناں یہ تم سے آج کہنا ہے شفاف آخر

تِرے وعدوں میں کیونکر ہے میعاری انحراف آخر

محبت ہو تو دشمن بھی تناسُب راست ہوتے ہیں

تِرے جیسے حسیں چہرے کِسے برداشت ہوتے ہیں


فکر چھوڑو زمانے کی ، مجھے اپنی بنا لو نا

وہ ساحلّ مجھ سے کہتی تھی ریاضی کچھ سکھادو نا

 

Comments

Popular posts from this blog

اشبیلیہ اندلس کا سفر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک تصویری بلاگ

کرٹن یونیورسٹی میں طالب علموں کی احتجاجی خیمہ بستی کا منظر

رزان اشرف النجار -------------زرد پھولوں میں ایک پرندہ