ایک ورق
سفر ابھی جاری ہے تحریر : عاطف ملک وہ ادھر اُدھر پانی کی تلاش میں پھر رہا تھا۔ اچانک اس کی نظر ایک سبیل پر پڑی۔ ایسی سبیل جو کہ سرکاری سکولوں میں بنی ہوتی ہے۔ ایک چوکور سیمنٹ کا بڑا سا ڈبہ جس کی چھت پر ایک چوکور سوراخ ہوتا۔ اس سوراخ کے اوپر سیمنٹ کی ایک سِل رکھ ہوتی کہ پانی میں درختوں کے پتے اور پرندوں کی بیٹیں نہ مل جائیں۔ اس سِل کو اٹھا کر ماشکی اس میں پانی ڈال دیتا اور سارا دن سکول کے بچے اس سبیل کے نلکوں سے پانی پیتے رہتے۔ کئی دفعہ وہ سل بھی ٹوٹ جاتی اور یہ پردہ بھی ہٹ جاتا۔ سبیل کے آگے لگے نلکے چوری ہوجاتے تو ان سوراخوں میں لکڑی یا کپڑا ٹھونس کر پانی روک دیا جاتا۔ سرکاری سکولوں میں ایسے ہی بچوں کو زندگی کی حقیقتیں سمجھائی جاتی تھیں۔ ماشکی کی کمر پر مشک ہوتی جس کو سنبھالنے کو کوشش میں وہ ایک جانب کو جھکا ہوتا۔ ایک ہاتھ سے مشک کے منہ کو بند کیے اور دوسرے ہاتھ سے مشک کا بوجھ سنبھالتے۔ مشک پانی سے گیلی ہوتی، جسم بھرا ہوا، پور پور اپنے راز کا بتاتا۔ مشک عجب ایک رنگ لیے ہوتی تھی، صدیوں اس نے انسان کی پیاس بھجائی ہے۔ صحراوں، بیابانوں کی سختیو...