قصہ چہار دوست

تحریر : عاطف ملک

پینتیس سال قبل وقت اور قسمت کا سفر چار نوعمروں کو اپنے اپنے گھروں کے آرام سے ایک غبار آلود شہر میں لے آیا۔ شہر بھی خوابیدہ تھا اور یہ لڑکے ابھی خود بھی خوابیدہ تھے، ان کی آنکھیں ابھی نیم وا تھیں۔ دسویں جماعت کا امتحان دینے کے بعد وہ زندگی کی طرف دیکھنے لگے تھے؛ حیرت، حیرانی، بے یقینی سب آپس میں گڈ مڈ تھا۔ ان کی آنکھیں ابھی ادھ بند تھیں۔

ان میں سے ایک چکوال کے ایک گاوں سے آیا تھا۔ وہ گاوں کہ گوجر خاں سے چکوال جاتے راہ میں آتا تھا۔ ایک ٹوٹی پھوٹی سڑک اور اس پر چلتی ایک پرانی فورڈ  ویگن۔ عجب بے ڈھنگی سی ویگن، بونٹ آگے کو نکلا ہوا، فرنٹ پر دو خواتین کے لیے سیٹیں، درمیان میں بیک ویو شیشہ اور اس پر لٹکتے تین رنگ برنگے پراندے، رفتار بدلنے کے لیے گیئر کی لمبی سلاخ اور اس پرلگا  کالا لٹو۔  اور اس لٹو پر زور لگاتا ڈرائیور۔ فرنٹ دروازے کے ساتھ ہی پیچھے  باہر کھلتا دروازہ اور اس سے لٹکتا کنڈیکٹر۔ اور گوجر خان کے ویگن سٹینڈ پر لوگوں کا ہجوم جو ویگن آتے ہی اس پر ٹوٹ پڑتا تھا۔ویگن کے پچھلےحصے کی کھڑکیاں کھول کر اس میں اپنے کندھے پر دھرے کپڑے کے صافے کو سیٹوں پر پھینک کر اپنی نشستیں محفوظ کرنے کی کوشش کرتے ہوئے۔ اُس نے اس سے آگے کا منظر کبھی نہ دیکھا تھا۔ وہ ابھی خوابیدہ تھا، اس کی آنکھیں ابھی نیم وا تھیں۔

ان میں سے ایک سرگودھا شہر سے آیا تھا، وہ شہر جو انگریزوں نے ایک نہری کالونی کے طور پر بنایا تھا۔ شہر کہ جو بلاکوں کی شکل میں بنا تھا اور ہر بلاک کے درمیان میں ایک میدان تھا۔ وہ جو سرگودھا کی منڈی سے سولہ روپے میں سو مالٹوں کی بوری سائیکل پر لاد کر گھر لے آتا تھا اور پھر دھوپ میں بیٹھ کر سب کھاتے تھے۔ وہ جو سرگودھا کے دیہاتیوں کی طرح دھوتی باندھتا تو دونوں جانب پلو لٹکے ہوتے اور وہ امین بازار، اردو بازار سے گذرتا، گول مسجد سے چکر لگاتا  فیکٹری ایریا کے قریب واقع اپنے گھر آجاتا تھا۔ سرگودھا وہ شہر جو گرمیوں کے موسم میں آندھیوں سے اٹا ہوتا تھا، ہر شے غبار آلود ہو جاتی۔ ایسا منظر کہ کچھ  آگے کا دکھائی نہ دے۔ وہ ابھی خوابیدہ تھا، اس کی آنکھیں ابھی نیم وا تھیں۔

ان میں سے ایک اس شہر سے آیا تھا جس کا نام اس کے ساتھ بہتے دریا کے پانیوں کے نام سے جہلم تھا۔ وہ شہر کہ جس کے قریب صدیوں قبل سکندر اعظم اور راجہ پورس کی فوجیں لڑی تھیں اور آج بھی اس کے باسی بڑی تعداد میں فوج میں ہیں۔  شہر جس میں تین مشین محلے تھے۔ منگلا ڈیم کے بننے سے پہلے تک کشمیر کے جنگلات سے ٹھیکیدار درخت کاٹ کر اُن پر نمبر لگا کر جہلم دریا میں بہا دیتے تھے۔ مشین محلوں کے کاریگر ان درختوں کو نکال کر انکی چرائی کر کے مختلف لکڑی کی اشیاء بناتے تھے۔ اسی شہر میں دریا  کےکنارے واقع باغ محلہ میں اس کا بچپن گذرا تھا ۔ جہلم دریا کے کنارے بابا سلمان پارس کا مزار تھا جہاں اس کا دادا جمعرات کی جمعرات اسے لے کر دعا کے لیے جاتا تھا۔ بابا سلمان پارس جن کے بارے میں مشہور تھا کہ 1965 کی جنگ میں وہ جہلم کے پل پر کھڑے ہو کر بھارتی ہوائی جہازوں کے برسائے بم دریا میں ڈبورہے تھے۔ مزار جس کے صحن میں لگا برگد  کا درخت اسے ہمیشہ اپنے طرف کھینچتا تھا۔ چہار سو پھیلا ہوا درخت اور اس کی شاخوں سے لٹکتے ریشے؛ ریشِ برگد ، ایسے جیسےرسی بنیُ ہو ۔ وہ اُس درخت کو دیکھتا تو اُسے صاحب مزار کا خیال آجاتا، پھیلا ہوا چہار سو پھیلا ہوا شخص اور ریش ، گھنے ریش۔ جہلم کے باغات خاموش تھے، شہر خاموش تھا، دریا کنارہ خاموش تر تھا۔ وہ ابھی خوابیدہ تھا، اس کی آنکھیں بھی نیم وا تھیں۔

ان میں سے ایک لاہور سے آیا تھا۔ لاہور ابھی ایسے پامال نہ ہوا تھا۔ لاہور ابھی تک باغوں کا شہر تھا۔ مال روڈ ابھی تک چہل قدمی کی جگہ تھی۔ لارنس گارڈن کے درخت لاہور کو پاک کرتے تھے۔ سایہ دار، خوابیدہ کرتے درخت۔  سمن آباد جہاں اس کا گھر تھا ابھی آبادی سے اٹا نہ تھا۔ اس کا وقت محلے دار لڑکوں کے ساتھ ڈونگی گراونڈ میں کرکٹ کھیلتے، ایک گول چکر سے دوسرے گول چکر تک سائیکل پر گھر کا سامان لاتے گذرا تھا۔ سمن آباد میں موٹی دیواروں سے بنے مکان جن کے آگے ستون دار برآمدے سکون آمیز تھے۔ اونچی چھتوں کے کمرے جن کے روشندانوں سے تاریک کمروں میں جب روشنی چھن کر آتی تھی تو  وہ اس روشنی میں  اڑتے، نظر آتے ذرات دیکھتا اور سوچتا تھا  کہ یہ کیا  ہیں؟ ایک الگ جہاں جو  کمرے کی  لائیٹ جلاتے ہی کہیں گم ہوجاتا۔ وہ خوابیدہ تھا ، اس کی آنکھیں بھی نیم وا تھیں۔

پینتیس سال وہ سفر میں رہے۔ انکی آنکھیں رنگ، روشنی، چہل پہل، شور سب سے کھل گئیں۔

پینتیس سال بعد وہ دوبارہ ملے۔ ایک دوسرے کو دیکھ کے مسکرائے۔ مسکرانے کے بعد انہوں نے ایک دوسرے کی جانب غور سے دیکھا۔  انکی آنکھیں نیم وا تھیں، خوابیدہ۔ 

وہ سب خواب میں تھے۔

Copyright © All Rights Reserved :
No portion of this writing may be reproduced in any form without permission from the author. For permissions contact:
aatif.malikk@gmail.com 

Comments

Popular posts from this blog

Selection of Private Hajj Operators: Considerations

کیااتفاق واقعی اتفاق ہے؟

اشبیلیہ اندلس کا سفر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک تصویری بلاگ