ڈاکٹر تنویر الحق کی یاد میں


                                     
                       
تحریر: عاطف ملک

پنڈی سے لاہور آتی ریل کار نے دریائے راوی کا پل عبور کیا  اور میں نے موبائل  نکالا اور  پیغام ٹائیپ  کرنا شروع کیا، "میں لاہور پہنچ گیا  ہوں، کل ملتے ہیں اور دوپہر کا کھانا اکٹھے کھاتے ہیں"۔ دو گھنٹے بعد موبائل پر جوابی پیغام آتا  ہے،"میں تنویر الحق کی بہن ہوں، تنویر کا ایکسیڈنٹ ہوگیا ہے، دعا کریں"۔ وقت مقرر تھا، سو ڈاکٹر تنویرالحق بہت سوں کو سوگوار چھوڑ کر اگلے جہاں کے سفر پر چل نکلے۔ تنویرالحق میرے بڑے بھائیوں کی طرح تھے، میں نے کئی معاملات میں ان سے مشورہ لیا۔ میں ایک بے چین، بے صبرا اور تنویر الحق ایک معاملہ فہم آدمی، کئی جگہ پر انہوں نے مجھے درست مشورہ دیا جسے میں نے مانا، کئی جگہ پر انہوں نے مجھے درست مشورہ دیا جسے میں نے اسی یقین کے ساتھ نہ مانا جس یقین کے ساتھ انہوں نے مشورہ دیا تھا۔ میں انہیں اپنے بڑے بھائی کی جگہ جانتا تھا، مجھےعلم تھا کہ یہ وہ شخص ہے جس سے مجھے میرے ماننے اور رد کرنے سے بالاتر ہوکر بے غرض صائب رائے ملے گی۔ آج کے دورمیں یہ اطمینان ہونا بڑی بات ہے۔

اگرآپ کالج آف ایروناٹیکل انجینیرنگ (سی-اے-ای) میں اسی کی دہائی کےآخر میں پڑھتے رہے ہوں توآپ کی ملاقات  تنویر الحق سے ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو، اُنکا نام ضرور سنا  ہوگا۔ سی-اے-ای کی تاریخ میں سب سے زیادہ گریڈ تین اعشاریہ اٹھانوے کے ساتھ گریجویٹ ہوئے تھے یعنی چار سال کی انجینئرنگ کی ڈگری میں انہوں نے تمام مضامین میں اے گریڈ لیا تھا سوائے ایک مضمون کے جس میں بی گریڈ تھا۔ میں نے بھی انکا نام سنا تھا، ملاقات کبھی نہ ہوئی تھی، اور اتفاق ایسا کہ ملاقات سے پہلے بات ہوئی۔ دو ہزار چار کی بات ہے کہ اسلام آباد تعیناتی تھی، پتا لگا کہ آس پاس کے لوگوں کی بیگار میں آفیسرز میس میں گارڈ ڈیوٹی لگ رہی ہے۔ کوئی فلائیٹ لفٹیننٹ ہے، ملکی سطح پر مقابلے کے امتحان میں کامیابی حاصل کر کے بیرون ملک پڑھنے کا سکالرشپ حاصل کیا تھا، پڑھنے امریکہ گیا، پی ایچ ڈی مکمل کی اور پھر محکمے سے اجازت لیے بغیر وہیں گراہم بیل کی قائم کردہ کمپنی بیل لیب میں نوکری کرلی۔ سالوں بعد واپس آیا اور اب گرفتار ہے، آفیسرز میس کے کمرے میں اس پر گارڈ ڈیوٹیاں لگ رہی ہیں۔ مزیدعلم ہوا کہ نام تنویر الحق ہے، وہی جس کا سی-اے-ای کا تعلیمی ریکارڈ تھا۔ میں نے آفیسرز میس میں اسیر کے کمرے کا نمبر پتہ کیا اور فون ڈائل کیا، گارڈ نے فون اٹھایا، اُسے کہا کہ گرفتار سے بات کروا دو۔ بات  ہوئی، کوئی پہلے ملاقات نہ تھی، نہ تعلق، نہ واسطہ بس ایک گرفتار کو باہر سے کی گئی ایک کال تھی۔ بہت عرصے بعد علم ہوا کہ آپ نسیم حجازی کے نواسے تھے، اور میرا بچپن تو نسیم حجازی کے ناول پڑھ پڑھ کر گذرا تھا؛ خاک اور خون، آخری چٹان، اور تلوار ٹوٹ گئی، یوسف بن تاشفین اور کیا کیا نہ۔ کتنی راتیں ان تاریخی ناولوں کو پڑھتے ایک نوعمر خوابیدہ ذہن مجاہدین کے ساتھ تصوراتی گھوڑا  دوڑاتے اندلس کی سرزمین سے وسطی ایشیا کے میدانوں میں پھرتا رہا، کئی معرکے لڑا، کئی محبتوں کا اسیر ہوا۔ شاید اس کال کے کرنے میں وہ لاشعوری تعلق بھی کہیں موجود تھا۔

بعض لوگوں کے ساتھ دن رات گذار کر بھی تعلق نہیں پیدا ہوتا اور کسی سے چند منٹوں کی بات ہی زندگی بھر کا تعلق قائم کرجاتی ہے۔ ربط قائم رکھنا تنویرالحق کا کمال تھا۔ ایک انتہائی مصروف آدمی ہونے کے باوجود وہ تعلق اور اسے قائم رکھنا جانتے تھے۔ اس کال کے عجب معاملات تھے، پہلی دفعہ بات ہو رہی تھی، گرفتار نے آزاد  سے کہا کہ ایک کام ہے اگر آپ کر سکیں۔ آزاد نے کام کو پرکھا، محکمانہ قواعد میں اجازت نہ تھی، انسانی قواعد کی رو سے جائز تھا۔ کسی آرزوں کے اسیر کے لیے شاید یہ فیصلہ مشکل ہوتا مگر کسی بھی بےچین روح کے لیے سیدھا سیدھا فیصلہ تھا۔

 ڈاکٹر صاحب نے مرتے دم تک اُس فون کال کو یاد رکھا اوراس سے متعلقہ چھوٹے سے عمل کو کہیں بڑھ کر واپس کیا۔ کئی قصے ہیں؛ ایک ریڈار یونٹ میں ایک ٹیکنیشن میرے ساتھ تھا ۔ ہر دوسرے دن کسی جھگڑے میں مصروف، دفتری ریکارڈ سرخ سیاہی سے مزین، نوکری سے وہ تنگ اور نوکری اُس سے تنگ، وہ کمبل کو چھوڑتا  تھا مگر کمبل اسے نہیں چھوڑتا تھا۔ کسی کی بات سننے کا روادار نہ تھا، مگر طریقے سے بات کرو تو جان بھی حاضر کردیتا۔ کام کرنے پر آتا تھا تو مسلسل کئی دن لگا رہتا تھا۔ الگ آدمی تھا سو الگ  طریقے کا برتاو مانگتا تھا مگر وردی تو یکسانیت کا نام ہے۔ سو آخر نکالا گیا، میں نے ڈاکٹر صاحب کے حوالے کیا۔ ڈاکٹر تنویر نے اپنے پاس نوکری دی اور تربیت دی تو اس نے کمال کر کے دکھائے۔ ایک وقت ڈاکٹر تنویر کے ساتھ امریکن کمپنی بیرنگ پوائنٹ کے لیے ایک پروجیکٹ پر کام کر رہا تھا۔ اُس کمپنی نے اسکا کام دیکھا  تو کہا کہ دولاکھ ماہانہ پررکھتے ہیں، شرط  یہ ہے کہ  ڈاکٹر تنویر کو پراجیکٹ سےنکال دیا جائے گا۔ اس زمانے کے لحاظ سے دو لاکھ بڑی ماہانہ تنخواہ تھی۔ اُس نامی گرامی  بےادب نے اُس کمپنی کی بےا دبی کرنا مناسب جانا۔ میں جب بھی اُس سے ملا اسکی زبان پر ڈاکٹر تنویر کےنام کا ورد ہوتا۔  ڈاکٹر صاحب کے جنازے پر وہ  فیصل آباد  سے پہنچا، زار زار روتا تھا اور کہتا تھا آج میرا باپ مر گیا۔ مجھے کہنے لگا، مجھے پتہ ہے فیصل آباد میں کتنے یتیموں کا خرچہ ڈاکٹر صاحب چپ چاپ اٹھا رہے تھے کہ مجھے ہی ان تک خرچ  پہنچانے کا ذمہ دار بنایا ہوا تھا۔
 
میں شنگھائی یونیورسٹی میں ایک کانفرنس میں پیپرپڑھنے جارہا تھا۔ جہاز میں بیٹھا، پروازکیے ہی چاہتے تھے کہ  خیال آیا کہ ڈاکٹر صاحب کو فون کر لیتا ہوں۔ فون کیا، پوچھا، کدھر ہو۔ میں نے کہا کہ بتانا بھول گیا تھا، چین کو جاتا ہوں، شاید کوئی علم  حاصل کر پاوں۔ کہنے لگےچین میں کوئی رابطے کا نمبر ہوگا؟ ایک نمبر تھا سو دے دیا۔ شنگھائی پہنچ کرسامان ہی سیدھا کیا تھا کہ فون بج پڑا، کوئی انگریزی بولتی چینی تھی، پوچھا سیدی، پاکستان سے کیا آپ آئے ہیں؟  کہا، جی ناچیز پاکستان سے آیا ہے، جواب ملا کہ آپ چین میں چائنہ ٹیلیکمیونیکشن کے مہمان ہیں، آپ کی قیام کے تمام عرصےمیں مہمانداری کے لیے مجھے سٹاف آفیسر متعین کر دیا گیا ہے، بتائیے کب حاضر ہوں؟ میں جو چین میں ناچیز تھا یک دم چیز ہوگیا۔ کبھی اورینٹل ٹی وی اور ریڈیو ٹاورکی بلندیوں پر،  کبھی ہوانگ پو دریا میں کشتی کی سیر، کبھی منگ بادشاہوں کا بنائےہوئے یوگارڈن میں، مسلم ریسٹورںٹس میں کھانے سب کچھ مہمان داری کے زمرے میں تھا اور سب سے بڑھ کرایک بہترین انگریزی بولتی خوبصورت چینی گائیڈ کا ساتھ تھا۔ ڈاکٹر تنویرجواُن دنوں زونگ میں تھے یہ اُنکی ایک کال کا کمال تھا۔ واپس آکرانکا شکریہ ادا کیا، مسکرا کر بات ٹال گئے۔  

ڈاکٹر تنویر اورمیں نے کئی سال پنجاب  یونیورسٹی  کے نئے قائم شدہ الیکڑیکل انجینیرنگ ڈیپارٹمنٹ میں بحثیت وزٹنگ فیکلٹی پڑھایا۔ میں ہر ویک اینڈ پر جمعہ کو لاہور اپنے گھر آتا اور ہفتہ کے دن ہم دونوں کی کلاسیں آگے پیچھے  پنجاب یونیورسٹی میں ہوتیں۔ یہ ایک الگ تجربہ تھا۔ پنجاب یونیورسٹی میں خام ٹیلنٹ آتا ہے، انگریزی کے ملمع کے بغیر، شہریوں کے ساتھ گاوں کے باسی، پالش شدہ جوتوں سے پیوند لگی چپلوں والے، معاشرے کی تمام سطحیں، معاشرے کے خلوص سے لیکر دوغلے پن کے تمام رنگ ایک دوسرے میں ایسے لپٹے ہوئے کہ الگ نہ ہو پائیں، جمعیت کے باریش پیروکاروں سے لیکرلادینیت کے دائرے  پر گھومتے سوال اٹھاتے مضطرب ذہن۔ یہ مختلف ضرور تھے مگر صلاحیتوں سے بھرے نوجوان تھے۔ ڈاکٹر تنویر جیسا استاد ان کے لیے ایک نعمت تھا۔ پرڈیو یونیورسٹی امریکہ سے الیکٹریکل انجینئرنگ میں پی ایچ ڈی، بیل لیب کا سالہا سال کا تجربہ ، انجینیرنگ کے شعبہ میں امریکہ میں ملے دو عدد پیٹنٹ، ایر فورس سے شمشیرِ اعزازی، ایچ ای سی میں پاکستان ایجوکیشن اینڈ ریسرچ نیٹ ورک کے پراجیکٹ کے ذریعے تمام یونیورسٹیوں کو جوڑا، زونگ  کے ٹیکنیکل شعبہ کی اپنے ریجن کی سربراہی اور پھر وائی ٹرائیب کی سربراہی۔ تعلیم اورانڈسڑی کا ایسا تجربہ بہت کم لوگوں کو ہوتا ہے۔ ڈاکٹر تنویر نے ان طالبعلموں کی عملی تربیت کی۔ ڈاکٹر صاحب نے امریکہ میں بلااجازت رہنے کے جرم کا کفارہ ان لوگوں کی تربیت سے پورا کردیا۔ پنجاب  یونیورسٹی سرکاری یونیورسٹی ہونے کے ناطے سے انہیں بہتر معاوضہ دے ہی نہیں سکتی تھی، وہ یہ کام اپنا فرض سمجھ کر ادا کر رہے تھے۔ آخری سال کے طالبعلموں کے سامنے سب سے بڑا سوال نوکری کا حصول ہوتا ہے۔ ایک دن کلاس میں طالبعلموں نے بحث چھیڑ دی کہ ہمارے ملک میں میرٹ ایک بیکار چیز ہے، اور نوکریاں توصرف سفارش پر ملتی ہیں۔ ایک لحاظ سے شاید یہ درست بھی ہو، مگر ڈاکٹر تنویر نے باتوں پرعمل کی ترجمانی کو ترجیح دی۔ اُسی کلاس میں اپنی کمپنی کے لیے ایک انجینیر لینے کا اعلان کیا، کلاس میں سے ہی اوپن میرٹ پر پانچ طالبعلموں کوابتدائی طور پرچنا۔ بعد میں وہ میرٹ پر چُنے لڑکے کمپنی کے چناو کے طریقے سے گذرے اوران میں سے ایک کو نوکری مل گئی۔ ڈاکٹر صاحب نے پوری کلاس کوایک عملی طور پرسبق سکھا دیا۔ وہ طالبعلم اس ٹیلیکمیونیکشن کی نوکری سے سیکھ کر آگے فن لینڈ کی ایک یونیورسٹی میں پچ ایچ ڈی کرنے گیا اور آج اپنا کردار ادا کررہا ہے۔

یہ ڈاکٹر صاحب کے بچے تھے، اُن کے جنازے پر یہی  بچے اپنے استاد کو کندھا دے رہے تھے۔ اُن کو قبر میں اتارنے والا پنجاب یونیورسٹی کا ہماری کلاس کا سابقہ طالب علم تھا جو شاید گجرانوالہ سے جنازے کے لیے آیا تھا۔ پنجاب یونیورسٹی نے اُنکی وفات کے بعد  تنویر الحق میڈل کا آغاز کیا، جسے پہلی کانوکیشن پرڈاکٹر صاحب کی والدہ نے دیا۔

ڈاکٹر صاحب نے وفات سے چند دن قبل مجھے اسلام آباد فون کیا۔ کہنے لگے کہ کچھ کاغذات کی اسلام آباد میں ایچ ای سی سے تصدیق کرانی ہے۔ میں نے کہا بھجوا دیں، میں کروالونگا۔ کاغذات نہ پہنچے، میں نے فون کیا تو  کہنے لگے کہ میں خود آنے کا پروگرام بنا رہا ہوں۔ ڈاکٹر صاحب اسی کام کے سلسلے میں اسلام آباد  آرہے تھے کہ موٹر وے پر انکا ڈرائیور گاڑی چلاتے سو گیا جس کی وجہ سے آپکی گاڑی ایک ٹرک میں جا ٹکرائی۔ ڈرائیور کو خراش تک نہ آئی مگر ڈاکٹر صاحب خالق حقیقی سے جاملے۔

ڈاکٹر صاحب کی وفات کی اطلاع میں نے اسلام آباد میں فضائیہ کمیونیکیشن کے انچارج کو دی، عام طور پر کسی بھی ریٹائرڈ افسر کی وفات کا ایک ایس ایم ایس ایکسینچ سے جاری ہو جاتا تھا کہ تعلق داروں کو علم ہو جائے مگر  یہ ایس ایم ایس نہ آیا۔ میں نے دو گھنٹے بعد دوبارہ فون کیا۔ اس نے بتایا  کہ آفیسر کمانڈنگ یونٹ نے اجازت نہیں دی کہ فلائیٹ لفٹیننٹ رینک کوئی قابلِ ذکر نہیں کہ اس ریٹائرڈ افسر کی موت کا اعلان کیا جائے۔ افسوس کا مقام تھا کہ ایک دن پہلے بے وجہ سب کو کئی بار بار  ایس ایم ایس کیے گئے تھے کیونکہ ایک فاتر العقل قسم کے صاحب ایرمارشل بنے تھے اور وہ مبارکبادیں وصول کرنےکے لیے اپنے خود اعلان کردہ وقت کو تبدیل کر دیتے تھے ۔ میں نے انجینیرنگ برانچ کے ایک ایر کموڈورصاحب کو فون کرکے اس معاملے میں مدد کی درخواست کی مگر اطلاع نہیں دی گئی سو اس بنا پر ان کے کچھ پرانے ساتھیوں کو اس سانحہ کا وقت پر علم نہ ہوسکا۔

 ڈاکٹرصاحب کی رہائش لاہور میں پیکو روڈ  پر تھی ۔ ان کے کسی قریبی عزیز نے فیصلہ کیا کہ انکا جنازہ  ماڈل ٹاون میں ڈاکٹر اسرار کے ادارے قرآن اکیڈمی میں پڑھایا جائیگا، سو جنازہ ماڈل ٹاون لے جایا گیا۔ جنازے سے قبل  امام صاحب، جو کہ ڈاکٹر اسرار کے صاحبزادے تھے، نے کہا کہ میں ان صاحب کو نہیں جانتا، کوئی آگےآ کران کے بارے میں بتائے۔ ڈاکٹر تنویر کے بھائی نے کچھ کلمات ڈاکٹر صاحب کی زندگی کے بارے میں کہے۔ امام صاحب نے انکے بعد کہا  کہ میں ان صاحب کے بارے میں جاننا چاہتا تھا  کیونکہ اتنا بڑا جنازہ  ہماری مسجد کے اندر کبھی پہلے نہیں ہوا۔ یہ محلے میں ادا  کیا جنازہ نہ تھا کہ آس پاس کے لوگ شریک ہوجاتے، یہ جمعہ کی نمازکے بعد کا جنازہ نہ تھا کہ نمازیوں کی تعداد ویسے ہی زیادہ ہوتی ہے، یہ وہ  لوگ  تھے جنہیں  ڈاکٹر صاحب کا برتاو کھینچ کرلایا تھا۔ وہ ایک شائستہ اور جھکی شاخ کی مانند تھے جو ہر کسی  کو ثمر دیتی ہے۔ میں جو محکمہ کے کوتاہ بین کے رینکوں کے وزن کو اہمیت دینے  پرغور کر رہا تھا، سمجھ گیا کہ ڈاکٹر صاحب جاتے جاتے ایک اورعملی سبق پڑھا گئے ہیں کہ انسان بنیادی چیز ہے اس کے نام کے ساتھ لگے لاحقے اور سابقے ثانوی حیثیت رکھتے ہیں۔ 

بخدا انکی بے وقت موت ملکِ پاکستان کا ایک نقصان ہے۔ جب  میں یہ مضمون لکھ رہا  ہوں تو میرے سامنے ڈاکٹر تنویر الحق  کا  مسکراتا  چہرہ ہے،دبی دبی مسکراہٹ۔ چند  دن قبل ہی مجھے انہوں نے بتایا  تھا  کہ وہ  وائی ٹرایب کمپنی چھوڑ رہے ہیں۔ پوچھا  کدھر جوائن  کررہے ہیں۔ مسکراتے ہوئے بولے، اس سے بہتر جگہ  جارہا ہوں۔ مجھے بھرپور یقین ہے کہ وہ بہتر جگہ پر ہونگے۔ اُنکی سرشت میں ہی اول مقام پر رہنا تھا۔

خوش رہیں کہ آپ سے مل کر، آپ کو جان کرایک خوشی رہی، بچپن میں پڑھے تاریخی ناولوں والی خوشی، بے غرض، آنکھوں میں آنسو بھرلاتی۔



Kindly receit Surah Fateh for Tanvir ul Haq and all other departed souls.



Copyright © All Rights Reserved :
No portion of this writing may be reproduced in any form without permission from the author. For permissions contact:
aatif.malikk@gmail.com




Comments

Popular posts from this blog

Selection of Private Hajj Operators: Considerations

کیااتفاق واقعی اتفاق ہے؟

اشبیلیہ اندلس کا سفر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک تصویری بلاگ