انٹرنیٹ آف تھنگ یعنی اشیاء کے انڑنیٹ کے انسانی نسل پر اثرات
انٹرنیٹ آف تھنگ یعنی اشیاء کے انڑنیٹ کے انسانی نسل پر اثرات
کلیِر ایبٹ اور ڈاکڑعاطف ملک
یونیورسٹی آف ویسڑن آسڑیلیا
ابتدائیہ : یہ مضمون محترمہ کلیر ایبٹ اور ڈاکڑ عاطف ملک کے ایک انگریزی پیپر کا اردو ترجمہ ہے۔ کلیر ایبٹ نے یونیورسٹی آف ویسڑن آسڑیلیا میں فلسفے میں بیچلرز کی ڈگری حاصل کی اور اب کمپیوٹر سائنس میں ماسڑز کی ڈگری کے لیے زیرتعلیم ہیں۔ ڈاکڑ عاطف ملک ڈیپارٹمنٹ آف کمپیوٹر سائنس، یونیورسٹی آف ویسڑن آسڑیلیا میں پڑھاتے ہیں اور یہ مضمون اُنکے پڑھائے گئے مضمون انٹرنیٹ آف تھنگ یعنی اشیاء کے انٹرنیٹ کے دوران لکھا گیا۔
خلاصہ
اشیاء کا انٹرنیٹ ایک ایسے دور کی طرف لے جارہا ہے جہاں انسان کی خودمختاری ممکن ہے کہ الگورتھمز کے تابع ہو جائے۔ نیز ازاں انسان کی نجی زندگی یعنی پرائیویسی کو بھی مختلف آلات کے مسلسل اعداد و شمار یعنی ڈیٹا کے جمع کرنے سے خطرہ ہے۔ ایک طبقاتی تقسیم کا بھی امکان ہے جہاں ٹیکنالوجی کو سمجھنے والے اور لاعلم ایک پڑھے لکھے اور ان پڑھ کی مانند ہو جائیں گے۔ ہمارے لیے یہ بھی ممکن نہ ہوگا کہ ہم ان آلات کے چنگل سے نکل سکیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اشیاء کا انٹرنیٹ جو سہولیتیں لے کر آرہا ہے وہ اس قابل ہیں کہ ان تمام امکانی خطرات کا رسک لیا جائے۔ کیا یہ تمام امکانات اور خظرات ایک خیال ہیں یا حقیقت؟ یہ مضمون اس پر غور کی ایک کوشش ہے۔
مضمون
ٹیکنالوجی ہماری زندگیوں کو مختلف انداز میں بدل رہی ہے۔ اس کے اثرات ہمارے رہن سہن، کام کے اطوار، تعلیم کے طریقوں سے لے کر خود ہماری اپنے بارے میں رائے پر بھی اثر انداز ہورہے ہیں۔ اگر ایک نسل سمارٹ فون سے فائدہ اٹھا رہی ہے تو وہیں ایک نسل کے لیے اس کا استعمال یا بھر پور استعمال نہ کر پانا پریشانی کا باعث بن رہا ہے۔ اسی اثناء میں اشیاء کا انٹرنیٹ مستقبل میں ایک بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ ہے۔ اشیاء کا انٹرنیٹ سمارٹ اشیاء سے بنا ہوگا۔ عام استعمال کی اشیاء جب ان میں پروسیسنگ کی طاقت دے دی جائے اور وہ نیٹ ورک کے ذریعے دوسری اشیاء سے معلومات یعنی ڈیٹا کا تبادلہ کر سکیں تو یہ سمارٹ اشیاء کہلائیں گئی۔ ایک مثال عام ٹوتھ برش کی ہوسکتی ہے، وہ اگر آپ کی دانتوں کی صفائی پر ںظر رکھے اور آپ کو آپ کے موبائل پر یا کسی اور ذریعے سے بتائے کہ آپ اپنے دانتوں کی صفائی پر کم وقت دے رہے ہیں یا کوںے والے دانت کی صفائی آپ مسلسل صحیح نہیں کر رہے، تو یہ ایک ذاتی بات ہونے کے ساتھ ساتھ بچوں سے لے کر بڑوں سب کے لیے اہم بات ہے۔ یہ خبر آپکا ٹوتھ برش آپ کے دانتوں کے ڈاکڑ کو بھی بھیج پائے گا۔ سو اشیاء کا انڑنیٹ سمارٹ اشیاء کا ایک دوسرے سے مربوط ایسا نیٹ ورک ہوگا جو انسانی تہذیب کی کئی جہتیں بدل سکتا ہے
مگر اس تبدیلی کی انسان کو ایک قیمت ادا کرنی ہوگی۔ یہ قیمت معاشرتی تقسیم ، پرائیویسی کا فقدان، اور انسانی خود مختاری پرضرب کی شکل میں ظاہر ہوگی۔ انسان اپنے آرام کے لیے کن چیزوں کی قربانی کے لیے تیار ہوگا یہ ایک اہم سوال ہے۔ وہ خیال اور آورشیں جو آج سے چند دھائیوں قبل اہم تھیں کیا آج سے چند سال بعد بھی اہم رہیں گی؟ اگلے کچھ عرصے میں ہمیں علم ہوگا کہ انسانی نسل اپنے لیے حقیقتاً کیا اہم سمجھتی ہے۔
اشیاء کا انڑنیٹ فی الوقت ایک ترقی پاتا خیال ہے مگر اس کا بنیادی نقطہ دنیا کی حقیقی اشیاء کا انڑنیٹ کی غیر مرئی یعنی ورچوئل اشیاء سے ربط پیدا کرنا ہے۔ انسانی نسل کا اب تک اس طرح کے تعلق کا پہلے کوئی تجربہ نہیں رہا۔ حقیقی دنیا کا کوئی مدمقابل ہم نے پہلے نہیں دیکھا۔ اشیاء کا انڑنیٹ روزمرہ استعمال کی چیزیں مثلاً فرج اور ایر کنڈیشنر کو عقلمندانہ اشیاء میں بدل دے گا جو کہ ایک عالمی نیٹ ورک یعنی انڑنیٹ کے ذریعے دوسری اشیاء سے بات کریں گی۔ فرج آپ کو بتلائے گا کہ کھانا باسی ہونے والا ہے، سو اسے جلد استعمال کریں۔ مگر دوسری طرف لوگ یہ پتا کر سکتے ہیں کہ آپ کے فرج میں کیا پڑا ہے۔ گھڑی اور دوسری پہناوے کی چیزیں اپنے مالک کے بارے میں نہ صرف معلومات اکٹھی کر رہی ہونگی بلکہ نیٹ ورک کے ذریعے طاقتور کمپیوٹرز کو بھی بھیج رہی ہونگی۔ یہ ڈیٹا اور بہت سے دوسرے لوگوں کے ملتےجلتے ڈیٹا سے یہ کمپیوٹرزالگورتھمز کے ذریعے بہت سی معلومات حاصل کر رہے ہونگے۔ ایسی معلومات جو آج ہم سوچ بھی نہیں سکتے۔ سمارٹ آلات انسانی آرام کو بہتر کر سکتے ہیں، مثلاً ایک سمارٹ ایرکنڈیشنر وقت سے پہلے ہی درجہ حرارت کی پیشن گوئی کی مطابق گھر کو ٹھنڈا یا گرم کر سکتا ہے۔ ایک سرد رات گھر والوں کو کچھ کرنے کی ضرورت نہیں، سمارٹ ایر کنڈیشنر خود ہی حرارت کی سطح کم اور زیادہ کرتا رہے گا اور مکین آرام سے سوتے رہیں گے۔ اشیاء کا انڑنیٹ ہماری زندگی کے ہر پہلو میں آ جائے گا؛ پرائیویٹ اور پبلک، تفریحی، صنعتی، شہری، سائنسی تمام پہلو اس سے متاثر ہونگے ۔
اشیاء کا انٹرنیٹ کس حد تک ہماری زندگیوں میں داخل ہوگا اور ہماری زندگیاں کس حد تک تبدیل کر دیگا، ہم حتمی طور پر ابھی اس کے بارے میں نہیں کہہ سکتے مگر ماہرین کے خیال ہے کہ یہ ایک بڑی تبدیلی لائے گا اور ہر جگہ موجود ہوگا۔ یہ ایک متصل یعنی جڑا ہوا معاشرہ بنادے گا اور یہ متصل معاشرہ صرف مقامی نہ ہوگا بلکہ عالمی سطح پر جڑا ہوگا۔ ان آلات اور ڈیٹا کی بنا پر لوگ دوسروں کی ذاتی معلوما ت تک رسائی حاصل کر سکتے ہونگے۔ اشیا ء کے انٹرنیٹ سے ابھرنے والی یہ انتہا کی تبدیلیاں کئی سوالوں کو جنم دیں گی۔ سب سے بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا سب اس کو خوش آمدید کہنے کے لیے تیار ہونگے؟ جہاں اشیا ء کا انٹرنیٹ انسان کے لیے بہت مددگار ہوگا، وہیں یہ کئی فلسفیانہ اور اخلاقی سوالات کو جنم دے گا۔
اشیا ء کے انٹرنیٹ کے بارے میں گمان کیا جارہا ہے کہ یہ نوع انسانی کو جوڑے گا، مگر اس کا بھی خطرہ ہے کہ یہ تقسیم کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ ٹیکنالوجی کی ترقی کی رفتار دنیا کے مختلف ممالک میں مختلف ہے، اس سے ایک ڈیجیٹل تقسیم کے پیدا ہونے کا خطرہ ہے جہاں کچھ ممالک اور انکا معاشرہ اشیا ء کے انٹرنیٹ کے باعث باقی ممالک سے فرق ہونگے۔ اشیا ء کا انٹرنیٹ ہر جگہ موجود ہوگا اورمسلسل ڈیٹا بھیج رہا ہوگا، ایسے جیسے کوئی پوشیدہ جاسوس فرد پر نظر رکھے ہو۔ یہ ڈیٹا انسان کی بھلائی کے لیے استعمال کیا جارہا ہوگا مگراس کو کسی اور مقصد کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ عام آدمی کو سمجھ ہی نہ آئے گی کہ اُس کی زندگی کس حد تک اس اشیاء کے انٹرنیٹ کے جال میں الجھی ہوئی ہے۔اس کے علاوہ معاشرے میں عام آدمی اور ٹیکنالوجی جانتے شخص کی تقسیم پیدا ہونے کا بھی خطرہ ہے۔ ایک شفافیت کی ضرورت ہے، یعنی ہمیں علم ہو کہ کمپنیاں آلات کی مدد سے ہمارے متعلق کیا ڈیٹا اکٹھا کر رہی ہیں، یہ کیسے استعمال کیا جائے گا؟ ہمارے کیا حقوق ہیں؟ ہم اپنے ذاتی ڈیٹا پر کتنا حق رکھتے ہیں؟ اشیا ء کے انٹرنیٹ کے دور میں ہمیں کیا قانونی حقوق حاصل ہیں؟ ہم اپنے مفاد کا کیسے بچاو کر سکتے ہیں؟ یہ بہت بڑے سوال ہیں، خصوصاً بڑی کمپنیوں مثلاً گوگل، مائیکروسوفٹ وغیرہ کی اجارہ داری کے دور میں یہ مشکل سوال ہیں۔ یہ کمپنیاں ڈیٹا کو کسی اخلاقی تعین سے ہٹ کر اپنے مفاد میں استعمال کرنا چاہتی ہیں، اور عام افراد کی لاعلمی سے بھر پور فائدہ اٹھاتی ہیں۔ ابھی بھی انکے کسی سروس دینے کے پرائیوسی ایگریمنٹ بہت مشکل زبان میں لکھے جاتے ہیں، لمبی لمبی قانونی اصطلاحات سے بھرے ہوتے ہیں کہ عام آدمی بالکل بھی نہ سمجھ پائے۔ اگر آپ ایگریمنٹ کو نہ مانیں تو سروس نہیں دی جاتی۔ فری سروس کے نام پر کیا ڈیٹا اکٹھا کیا جارہا ہے اور کس مقصد کے لیے استعمال ہو رہا ہے، یہ ہمارے علم میں نہیں۔ ملکی اور بین الاقوامی قوانین ان معاملات میں ٹیکنالوجی کی رفتار سے کہیں پیچھے ہیں۔ کیونکہ انڑنیٹ کی کوئی جغرافیائی حد نہیں ہوتی، اس لیے ایک بڑا مسلہ یہ بھی ہے کہ ان قوانین کو ملکی سطح سے بڑھا کر عالمی سطح پر کیسے لایا جائے۔ ایسے قوانین کا بنانا جن پر مختلف ممالک متفق ہوں اور ان قوانین کا وقت پر بنانا بہت مشکل کام ہے۔
پرائیویسی کے ساتھ ساتھ انسانی خودمختاری بھی خطرے میں ہے۔ انسانی خودمختاری ایک انسان کا حق ہے کہ وہ اپنے فیصلے، چناو، عمل کا تعین خود کر سکے۔ اگر کوئی بیرونی طاقت مثلاً حکومت، قبیلہ، خاندان، ملازمت وغیرہ فرد کے چناو پر اثرانداز ہو تو یہ اُس کی خودمختاری کے لیے ایک خطرہ ہے۔ مستقبل میں ممکن ہے کہ ٹیکنالوجی انسانی خودمختاری پر حاوی ہو جائے۔ ایک عام آدمی ٹیکنالوجی کے تابع ہو کر اپنی خودمختاری کھو بیٹھے گا۔
اشیاء کے انٹرنیٹ کو ہم ہر جگہ پائیں گے جو کہ مسلسل انسانی ڈیٹا اکٹھا کررہا ہوگا۔ یہ اکٹھا کیا جانے والا ڈیٹا بہت کارآمد ہے، مثلاً ایک شخص کا بلڈ پریشر، نبض، اور دوسرا ڈیٹا آلات کے ذریعے اکٹھا کر کےالگورتھمز تجزیہ کر سکتے ہیں اور ڈاکٹر کو پیشگی علاج کے لیے خبردار کر سکتے ہیں کہ بیماری ابتدائی مرحلے میں ہی کنٹرول ہو جائے۔ یہ ڈاکٹر کو مزید معلومات بھی دے گا مثلاً مریض خوراک میں بداحتیاطی کر رہا ہے یا دوسری ہدایات کی پیروی نہیں کررہا۔ اسی طرح ایک سمارٹ کار اپنے ڈرائیور کی خطرناک ڈرائیونگ کے رحجان کے بارے میں بتا رہی ہوگی، گھر کے باہر گند اکٹھا کرنیوالا سمارٹ ڈبہ گھر کے کوڑے سے مکینوں کے بارے میں بہت کچھ بتا سکتا ہے۔اس صورتحال میں پرائیویسی کا سوال ایک بنیادی سوال ہوگا ۔
اشیاء کے انٹرنیٹ کا دور عجب ہوگا۔ جارج اورویل کے ناول "انیس سو چوراسی" کے ہر جگہ موجود ایک "بگ برادر"کے مقابلے میں اس دور میں کئی بگ برادرز ہونگے۔ یہ انفرادی شہری بھی ہو سکتے ہیں، حکومتی ادارے بھی ہو سکتے ہیں اور بڑی انٹر نیشنل کارپوریشنیں بھی ہو سکتی ہیں۔ اُنہیں انسان کے ذاتی ڈیٹا تک مختلف سطح کی رسائی ہو گی۔ جارج اورویل کے بگ برادر کے واحد مقصد یعنی کنٹرول کے مقابلے میں ان دوسرے بڑے بھائیوں کے مقاصد مختلف اور چھپے ہیں۔ یہ بڑے بھائی، جانتے، کنٹرول کرتے اور کبھی نہ بھولنے کی صلاحیتیں رکھتے ہونگے۔
اشیاء کا انٹرنیٹ ہمارے لیے مختلف کا م آسان بنا دے گا، ہمیں زیادہ نظر دیگا مگر دوسری جانب انسانی توقعات میں بھی اضافہ ہو جائے گا۔ مثال کے طور پر ای میل اور ایس ایم ایس نے جہاں رابطے آسان کر دیے ہیں، وہیں ایک توقع پیدا ہو گئی ہے کہ فوری جواب دیا جائے، سو اسی طرح اشیاء کا انٹرنیٹ انسانی توقعات کو بہت اوپر لے جا سکتا ہے کہ ہم اپنے ہر لمحے کو کارآمد بنائیں کیونکہ اب ٹیکنالوجی ایسا ممکن کر سکتی ہے۔ کیا ہماری زندگیاں ٹیکنالوجی کے وجہ سے زیادہ آزاد ہونگی یا محدود؟ یہ ایک اہم سوال ہے۔
ہم اشیاء کے انٹرنیٹ سے علیحدہ نہیں ہوسکتے۔ انفرادی طور پر یہ مشکل ہے، اور اجتمائی زندگی میں یہ ممکن نہ ہوگا کیونکہ اس کے فوائد کی بنا پر حکومتیں اور شہری انتظامیہ اس کا بھر پور استعمال کریں گی۔ آپ کی لاعلمی میں بھی آپ کا ڈیٹا جمع کیا جارہا ہوگا۔ انسانی خودمختاری کو سب سے بڑا خطرہ اشیاء کے انٹرنیٹ سے یہ ہے کہ وہ انسان سے بہتر کام کرنے کی صلاحیت دکھائے گی۔ گوگل کی خود چلتی گاڑی کا پہلا حادثہ تب ہوا جب اُس نے ایک پیدل کو بچاتے بریک لگائی اور پچھلی گاڑی جسے کو ئی فرد چلا رہا تھا، اُس سے آٹکرائی۔ یہ حادثہ نہ ہوتا اگر دونوں گاڑیاں خود چلتی ہوتیں اور آپس میں نیٹ ورک سے جڑی ہوتیں کہ پچھلی کار کو اگلی کار کا بھرپور علم ہوتا اور اُس کے بریک لگانے سے یہ بھی رک جاتی۔ ہم اسی رائے کو بڑھا کر کہہ سکتے ہیں کہ حادثات میں کمی ہو جائے اگر تما م گاڑیاں خود چلتی اور اشیاء کے انٹر نیٹ کے ذریعے سے جڑی ہوں۔ سو ہم ڈرائیونگ کا تجربہ اپنی اگلی نسلوں سے لیکر ٹیکنالوجی کو دیں گے کیونکہ اس طرح وقت، پیسے اور انسانی جانوں کا بچاو ممکن ہوگا۔ ڈرائیونگ کےعلاوہ کئی دوسرے کام ہیں جو کہ مستقبل میں ٹیکنالوجی کے حوالے کر دیے جائیں گے۔اس میں اشیاء کا انٹرنیٹ اور الگورتھمز ایک اہم کردار ادا کریںگے۔
انسانی استعداد بہت سے تعصبات کا شکار رہتی ہے اور افراد کے فیصلے ان کے زیرِ اثرہوتے ہیں۔ تعصبات انسانی خواہشات، پرورش، تجربات بہت سی چیزوں سےبنتے ہیں۔ کیا انسانی احساسات، جذبات اور تعصبات ہمیشہ غلط ہی ہوتے ہیں؟ اور کیا ہمیشہ انسانی کارکردگی پر برے انداز میں ہی اثر ڈالتے ہیں؟ یہ ایک پیچیدہ سوال ہے۔ گمان ہے کہ الگورتھمز ان تعصبات سے بالاتر ہوکر زیادہ بہتر طور پر کام کرسکتے ہیں۔
اشیاء ایک انسان کے بارے میں مسلسل مختلف ڈیٹا اکٹھا کر کے الگورتھمز کو دیں گی تو ہوسکتا ہے کہ وہ الگورتھمز اس شخص کو خود اُس سے بھی بڑھ کر جاننے لگ جائیں اور بہتر فیصلے کرنے لگ جائیں۔ الگورتھمز بتا سکیں گے کہ کس وقت اُس کا نیند سے جاگنا اُسے خوش رکھے گا، کن اشیاء کا ناشتہ اُس کی صحت کے لیے موزوں ترین ہے۔ وہ پرانے ڈیٹا کی بنیاد پر دوستوں کے چناو کی سفارش کر سکتا ہے۔ میرج بیورو یا شادی دفتر کی بجائے الگورتھم ڈیٹا کی بنیاد پر رشتے کروا رہے ہونگے، سو اشیاء کا انٹرنیٹ کئی جگہوں پر انسانی کاموں کا متبادل لا سکتا ہے۔ مگر کیا ہم اپنی آزادی اور خودمختاری خوشی سے ٹیکنالوجی کو دے دیں گے کیونکہ وہ انسانوں سے بہتر کام کر سکتی ہے یا ہمیں اس پر اعتراض ہوگا؟ انسان کی آنے والی نسل پر اس کا کیا اثر ہوگا؟ مختصر اور طویل عرصے میں اس کے کیا اثرات ہونگے؟ ان سب سوالات کا ہمیں سامنا کرنا ہوگا۔
پیو ریسرچ سنٹر، امریکہ کی رپورٹ میں سائیکو تھریاپسٹ، آرون بالک کے خیال میں "جب انسان اپنا کام ٹیکنالوجی کے حوالے کرے گا کیونکہ وہ بہتر کام کر سکتی ہے تو ہم اپنی خواہشات اور عقل کو ٹیکنالوجی کے تابع کر رہے ہیں۔ ہمیں اپنے اوپر اعتماد کی کمی کا خطرہ ہے۔ آپ نے ایسے قصے سنے ہونگے جہاں جی پی ایس کے مطابق چلتے ڈرائیور اپنی منزل سے کہیں دور جا پہنچے۔ وہ محسوس کر رہے تھے کہ وہ غلط جارہے ہیں، انکا آس پاس کا سفر انہیں بتا رہا تھا کہ وہ غلط جارہے ہیں، مگر ٹیکنالوجی کو اپنے سے برتر جانتے ہوئے وہ چلتے رہے۔ ہماری حسیات کا کیا ہوگا؟ چھٹی حس ہمیں بہت کچھ بتاتی ہے، مگر کیا ہم اُسے مانیں؟ ہم جو ایک گمنام راستے پر چل کر سیکھتے رہے ہیں، اُس کا کیا ہوگا؟ وہ جو رسک لیکر ہم نے سیکھا، وہ جو ہم نے اپنی غلطیوں سے سبق حاصل کیا، وہ کدھر جائے گا ؟"۔ ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ اس ٹیکنالوجیکل ترقی کا انسانی خودمختاری کے ساتھ ساتھ انسانی تخلیقی صلاحیت پر کیا اثر ہوگا؟ تخلیقی صلاحیت کیسے آتی ہے؟ اسکی ترویج اور ترقی کیسے ہوتی ہے؟ کیا تخلیقی حس ہم الگورتھمز کے تابع کر سکتے ہیں؟
ایک انسانی مشینی اسسٹنٹ مثلاً گوگل کا کورٹانا یا ایپل کے سری کو پروگرام کیا جاسکتا ہے کہ وہ اپنے مالک کا حکم مانے اور اس کے وقتی فائدے کی بجائے لمبے عرصے کے فائدے کا خیال کرے۔ مگر انسان کئی دفعہ وقتی خواہش رکھتا ہے جو کہ اس کے طویل عرصے کے فائدے سے متصادم ہوتی ہے۔ ہم نے اکثر شوگر کے مریضوں کو میٹھے کی بداحتیاطی کرتے دیکھا ہے۔ ایک مشینی اسسٹنٹ جس کے پاس اپنے مالک کا بہت ڈیٹا ہے، وہ اس ڈیٹا کی ساز باز سے اپنے مالک سے وہی حکم لے سکتا ہے جو وہ لینا چاہتا ہے۔ مالک اپنے آپ کو آزاد سمجھتے ہوئے بھی مشین کی تعبداری میں خوش رہے گا۔
انسان کو پیش آنے والے ان خطرات کا کیا حل ہے؟ اشیاء کا انٹر نیٹ اپنے ہمراہ کئی مسائل لائےگا۔ کیا ہم اس ترقی کو بند کر دیں؟ یہ ممکن نہیں۔ ایک نقطہ نظر یہ ہے کہ اشیاء کے انٹرنیٹ کی ترقی پر نظر رکھی جائے اور اس کو کنٹرول کیا جائے کہ یہ انسانی خودمختاری کو نقصان نہ پہنچا پائے۔ ایک اور نقطہ نظر ہے کہ کیونکہ الگورتھمز انسانی غلطیوں سے پاک ہونگے، اور انسان کو کئی فائدے پہنچائیں گے سو اس کی قیمت کے طور پر ہم انسانی خودمختاری کے نقصان کو خوشی سے قبول کریں۔
ایک انتہا پسندانہ نقطہ ںظر یہ بھی ہے کہ انسان اور مشین کی تفریق کو ختم کردیں۔ ہم اپنے جسموں اور دماغوں میں آلات کی پیوند کاری کرلیں۔ ہماری کارکردگی بہتر ہو جائے گی۔ ہم بہتر انسانیت کی خدمت کر پائیں گے، اس خیال کے مخالفین کےمطابق یہ انسانیت کی موت ہو گی، خدمت نہیں۔
اشیاء کا انٹرنیٹ ہمارے لیے کیا لاتا ہے، وقت ہی بتا پائے گا۔ کیا معاشرتی انصاف، پرائیویسی اور انسانی خودمختاری کی قربانی بڑے سوال ہیں یا انسانی آرام کے لیے یہ قربانی کوئی بڑی قربانی نہیں۔ یہ دو مختلف نقطہ نظر ہیں اور ان میں سے کون جیتتا ہے، یہ وقت ہی بتائے گا۔ ایک بات طے ہے کہ اشیاء کا انٹرنیٹ ایک حقیقت ہے اور ہمیں اس کا سامنا کرنا ہوگا ۔
آنے والا دور انسان اور ٹیکنالوجی کی ہم آہنگی اور کشمکش کا دور ہوگا۔
Copyright © All Rights Reserved :
No portion of this writing may be reproduced in any form without permission from the author. For permissions contact:
aatif.malikk@gmail.com
Comments
Post a Comment