منو بھائی مر گئے
تحریر: عاطف ملک
بیس جنوری دو ہزار اٹھارہ کو منو بھائی کی وفات کا سن کر لکھا۔
لاہور کے گورنمنٹ سنٹرل ماڈل سکول لوئرمال میں جب میں تیسری جماعت میں پڑھتا تھا تو ہمارا ایک ہم جماعت کاشف منیر نام کا تھا۔ اُس کو سکول چھٹی کے وقت اُس کی امی لینے آتی تھیں۔ سکول کے رزلٹ والے دن اور دوسرے خاص بلکہ عام دنوں میں بھی ہم نے اُس کی والدہ کو ہی دیکھا۔ ہمارے لیے یہ بڑی بات تھی، ایک ملنسار سی، پیاربانٹتی ماں اُسے چھوڑنے اور لینے آتی تھی۔ ہم جو رزلٹ والے دن ڈرتے تھے کہ ابا کے غصہ کے شکار نہ ہو جائیں، اُس کی جانب رشک سے دیکھتے تھے۔ چھوٹے سکول ( پرائمری سکول کو ہم چھوٹا سکول کہتے تھے ) کے عرصے میں ہم نے کبھی کاشف کے والد کو نہ دیکھا۔ اُسی دوران میں کسی نے بتایا کہ کاشف منو بھائی کا بیٹا ہے۔ منو بھائی، یہ کیا نام ہوا۔ یہ ہمارے منے سے ذہن سے کہیں بڑھ کر بات تھی۔
چوتھی جماعت میں جب ہمارا ہم جماعت عارف کرشن نگرمیں پتنگ لوٹتے چھت سے گر کر مر گیا، تو میں نے اماں سے پوچھا، اماں کیا بچے بھی مر جاتے ہیں؟ اماں نے مجھے اپنے ساتھ بھینچتے اداس لہجے میں کہا، بڑی بڑی باتیں نہ کیا کر۔ بعد میں میں سوچ رہا تھا کہ بڑی بات کیا ہوتی ہے؟ کاشف کے باپ کا نام منو بھائی، یہ کیسی بات ہے؟ ہمارے محلے میں منی رہتی تھی اور وہ واقعی منی سی تھی۔ یہ دور منوبھائی اور منی بہن کا تھا۔ منی ابھی بد نام نہ ہوئی تھی۔ بڑے بڑے گھر اپنی پیشانی پر ھذا من فضل ربی کے اعلانات کے ساتھ نہ بنے تھے۔ بان کی بُنی چارپائیاں تھیں اور روئی سے بھرے گدے تھے، فوم کے بنے گدے اور اُن کے جہیز میں شامل کرنے کے اشتہار ابھی نہ آئے تھے۔ اینٹوں کے بنے صحن جن پر شام کو پاںی لگا کر جب گرمی کا توڑ کیا جاتا تھا تو وہ ایک خوشبو دیتے تھے۔ منو بھائی نے یہی چھوٹی چھوٹی باتیں لکھیں اور اپنے ڈراموں میں دکھائیں۔ سونا چاندی نام کا ڈرامہ عام سی باتیں کرتے لوگوں کی کہانی تھی، کہیں کوئی گلیمر نہ تھا۔ اس میں چھوٹے چھوٹے لوگ بڑی بڑی باتیں کرتے تھے۔ وقت بدل گیا ہے اور آج کے بڑے لوگوں کی باتیں چھوٹی ہیں۔
جب کارگل کی جنگ کے وقت میرا چھوٹا بھائی شہید ہوا تو منو بھائی نے ضرار پرکالم لکھا۔ لکھا کہ وہ میرے بیٹے کے ہم جماعت کا بھائی تھا۔ میں ان کا شگر گذار ہوں، وہ عام باتیں لکھتے تھے، رشتے، تعلق، ہم جماعتوں، تھڑوں پر بیٹھنے والوں کی باتیں بتاتے، ٹرین کے سفر میں وقتی ساتھیوں کی
کہانیاں سناتے۔
منو بھائی مرگئے۔ میں نے اپنی ماں سے پوچھنا تھا کیا بچے بھی مر جاتے ہیں مگر اماں تو پہلے ہی اگلے سفر پر چل نکلیں۔ میں منوبھائی کے جنازے میں شریک نہ ہوسکا۔ مگر میری خواہش تھی کہ ریوازگارڈن سے جب ان کا جنازہ نکلتا تو میں ایک گمنام، ناواقف موٹرسائیکل سوار کے طور پر اپنا موٹرسائیکل ایک طرف سڑک پر روک کر بھاگ کر آگے بڑھتا اور منو بھائی کے کسی ڈرامے کےعام سے کردار کی مانند؛ عام، ان پڑھ ، سادہ کردار کے طور پر اُن کے جنازے کو کندھا دیتا، چند قدم ساتھ چلتا، کلمہ شہادت پڑھتا، اگلے پائے کو اٹھائے کچھ قدم چلتا اور پھر آہستہ آہستہ کلمہ پڑھتے جنازے سے نکل کر اپنی راہ کو چلا جاتا۔ یہ جانے بغیر کہ یہ کس کا جنازہ ہے، بس اپنا فرض جان کر کہ جاتے ہوئے جنازے کو کاندھا دینا بچپن میں کسی نے بتایا تھا کہ جانے والے کا حق ہوتا ہے، اور کبھی کسی کا حق نہ رکھو۔
آج کا اخبار بتا رہا ہے کہ منو بھائی مر گئے ہیں۔ اب کسی سے بندہ کیا پوچھے کہ کیا بچے بھی مر جاتے ہیں؟
Copyright © All Rights Reserved :
No portion of this writing may be reproduced in any form without permission from the author. For permissions contact:
aatif.malikk@gmail.com
Comments
Post a Comment