پسِ حرف بھی کچھ ہے

تحریر: عاطف ملک

استاد کو علم تھا کہ اسے تیاری کرنی ہے، اور اس بنا پر وہ اس ملاقات کے لیے  تیار تھا۔

اب یہ تو عجب بات ہے کہ استاد کو طالب علم سے میٹنگ کے لیے پہلے سے تیاری کرنی ہو۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ یونیورسٹی استاد کے  بہت اختیار ہیں، یہ اب وقت وقت اور جگہ جگہ کی بات ہے۔  

مغربی یونیورسٹیوں اور پاکستانی یونیورسٹیوں میں فرق  ہے۔ کسی زمانے میں استاد نے جامعہ پنجاب میں پڑھایا تھا جہاں کا جامہ ہی فرق تھا۔ استاد نے  وہاں دیکھا کہ داتا کی نگری کی اس یونیورسٹی میں استاد کم اور ان داتا زیادہ تھے۔ ایک استاد عجب صوفی منش تھا، اپنے وقت پر کبھی پڑھانے نہ آتا تھا اور جب پڑھانے پر آتا تھا تو جاتا نہ تھا۔ مضافاتی قصبوں سے آئے طلباء عجب بے یقینی میں رہتے تھے، پتہ نہیں کب کلاس ہو گی، ہو گی بھی یا نہیں، اور اگر ہو گئی تو کب ختم ہوگی۔ غرض بے یقینیِ حیات کے پروردہ تھے۔  زندگی میں کچھ حتمی نہیں ہوتا، وہ بھی کثیر رنگ تھے۔   ہمیشہ جھک کر ملتے تھے، ایسے کہ اگلا شرمندہ ہوجائے۔ حسابِ    وقت   کے  ساتھ ساتھ نفع ونقصان کے حساب سے بھی عاری تھے، اپنا سب کچھ دوسرے کے حوالے کرنے کو تیار رہتے تھے۔ ہر کسی کی بات میں آجاتے تھے،  سو  اسی بنا پر ڈیپارٹمنٹ کی سیاست کا شکار ہو کر نوکری سے برخاست ہوئے۔  

ایک اور استاد تھے۔ پوسٹ گریجویشن ایک اشتراکی ملک سے کرکے آئے تھے سو اشتراک پر یقین رکھتے تھے۔ ایک کورس پڑھاتے تھے  جس میں الیکٹرونکس  کی  اشیاء بنائی جاتی تھیں۔ طالب علموں کو حکم تھا کہ لاہور ہال روڈ کی ایک مخصوص دکان سے  تمام متعلقہ اشیاء خریدی جائیں۔ طالب علموں میں مشہور  تھا کہ  دکان سے ان کا اشتراک تھا کہ   اُن کے کورس میں   بنائے گئے پروجیکٹس کی اشیاء سمسٹر کے بعد اسی دکان  پر واپس پہنچ جاتی تھی۔ علم ہوا کہ   ایسے سائنسی استاد ہوں تو  خاک ہی نہیں بلکہ الیکٹرونکس کے پرزہ جات      بھی وہاں پہنچ جاتے ہیں جہاں کا خمیر ہو۔

  ان داتاوں سے کوئی کیا پوچھتا۔  یونیورسٹی میں گروہ بندیاں تھیں، مقدمے عدالتوں میں لگے تھے، اور استادوں میں منیر نیازی کے شعر کی حیرت اور بے اعتنائی پائی جاتی تھی۔  
کسی کو اپنے عمل کا حساب کیا دیتے/سوال سارے غلط تھے جواب کیا دیتے

جواب طالب علموں سے مانگے جاتے تھے۔  

 مگر  اس موقع پر  استاد کو تیاری کرنی پڑرہی تھی۔

جب مجھے اس کی ای میل آئی تھی کہ اس کے اگلے مضمون کے بارے میں کچھ سوال ہیں اور وہ اس سلسلے مجھ سے رہنمائی چاہتی ہے تو مجھے پتہ تھا کہ یہ میٹنگ عام نہ ہوگی۔

میرا اُس سے ایک ہفتے قبل بھی واسطہ پڑا تھا۔  

وہ ایک گروپ پروجیکٹ کی رپورٹ تھی جو اُس کے گروپ نے جمع کروائی تھی اور وہ گروپ لیڈر تھی۔   لمبی چوڑی، دیکھو تو آسٹریلین تیراکی ٹیم کی رکن محسوس ہو۔  رپورٹ بہت محنت سے  بنائی گئی تھی۔  تمام کام کا اچھا احاطہ کیا گیا تھا، جہاں ضرورت تھی وہاں اشکال اور تصاویر سے وضاحت کی گئی تھی۔ رپورٹ میں تمام خوبیاں تھیں۔ وہ  رپورٹ  اس کورس کی سب سے اچھی  لکھی گئی رپورٹ  تھی اور اس بنا پر چھیاسی فیصد نمبر حاصل کیے تھے۔ پوسٹ گریجوئیٹ کی سطح پر  یہ کافی اچھے نمبر تھے۔

طلباء کو ایک کہانی کار استاد ملا تھا اور وہ سائنسی رپورٹ کے بارے میں بھی کہتا تھا کہ رپورٹ کہانی کی مانند ہونی چاہیئے، بہاو کہ بہتا  چلا جائے، رپورٹ کےحصوں میں ربط ہو، ڈیزائن کے بارے میں بتاو کہ کہاں سے سفر شروع ہوا، کیوں یہ ڈیزائن بنایا اور سمسٹر کے سفر میں یہ کس وجہ سے بدلتا گیا۔ یہ بتانا  کافی نہیں  کہ کیا کیا ہے،  ضروری ہے کہ یہ بتاو کہ کیوں کیا ہے۔

پچھلے ہفتے  کی گروپ میٹنگ میں وہ مجھ سے پوچھ رہی تھی، بتائیے ہم اپنی رپورٹ کیسے بہتر کرتے کہ ہمارے حاصل کردہ نمبر اس سے بھی زیادہ ہوتے۔ہماری غلطیاں کیا ہیں۔  استاد نے گروپ کے سامنے چانچ کا پیمانہ رکھ دیا تھا ۔ اس پیمانے کو انگریزی میں روبرک کہتے ہیں اور استاد سمسٹر کے شروع میں ہی تمام   متعلقہ پیمانے طلباء کو دے دیتا تھاکہ ان کو علم ہو کہ کس بنیاد پر ان کو نمبر دیے جائیں گے۔ اگر  جانچ کا  پیمانہ فی صد کی بجائے نمبروں پر  ہو، تو استاد طالب علموں  کے سوالوں کا مسلسل شکار رہتا ، سو استاد   نے سیکھ لیا تھا کہ  جانچ کے پیمانے  فی صد  پر ہونے چا ہیئے،  مثلاً سب سے بہترین   رپورٹ کے نمبر  اسی فیصد سے سو فیصد  کے درمیان ہوں گے۔  ایسے کرنے سے  تقابلی جائزے کا عنصر استاد کے پاس رہتا  ۔

اب اس گوری لڑکی کو سمجھاتے استاد کو آدھا گھنٹہ ہو گیا تھا، مگر وہ  مصر تھی کہ نمبر زیادہ ہونے چاہئیں،   ہماری غلطی بتائیں۔ استاد اسے بتارہا تھا کہ خیال انسان کے دماغ میں الفاظ کے پیرائے میں  نہیں آتا۔   خیال بڑا ہے، الفاظ کوتاہ ہیں۔ الفاظ کو بُنیں تو خیال سامنے آتا ہے، اور بُنت اپنا اپنا قالب لاتی ہے، فرق فرق خاکے، جدا جدا ڈیزائن، عجب عجب  نمونے، کون   آگے ہے، کوئی حتمی نہیں بتا سکتا۔

استاد اُسے کیا بتاتا کہ پگلی  یونیورسٹی  پر نگاہ ڈال، مٹی کی بُنت کو تو دیکھ،  رنگ رنگ بکھرا، نسل نسل  پھرتی ہے،  کون   آگے ہے، کیا کوئی حتمی بتائے۔اچھے کی بات کر، کیوں کی بات مشکل ہے۔ وہ بات نہیں سُن رہی تھی، کہتی تھی کہ تو کوئی حتمی آلہ پیمائش دے، تو استاد ہے،  ترازو لا، ناپ کا فیتہ دکھا، بتا، ہمارے نمبر کیسے کاٹے۔

اب مضامین  میں پس ِالفاظ بھی بہت کچھ ہے۔ استاد کےلیے اُسے سمجھانا بہت مشکل ہورہا تھا۔ اگر وہ اردو جانتی تو استاد اُسے احمد سلمان کا شعر سناتا:
جو دکھ رہا اسی کے اندر جو اَن دکھا ہے وہ شاعری ہے

جو کہہ سکا تھا وہ کہہ چکا ہوں جو رہ گیا ہے وہ شاعری ہے

نثر بھی یہی رنگ رکھتی ہے، چاہے سائنسی مضمون ہی ہو، کہے سے آگے کچھ اَن کہا بھی ہوتا ہے۔ استاد نے اُسے تحقیقی پیپرز کا بتایا کہ  کسی کانفرنس میں جمع کرائے گئے پیپر پر جب آراء آتی ہیں ،  تو عموما ً تین مختلف ماہرین کی ہوتی ہیں اور ان میں فرق پایا جاتا ہے۔ یہ ریاضی نہیں کہ حتمی نمبر ہوں۔ سب بکھرا  ہے اور ایک حد پر سب ایک ہوجاتا ہے، کیا شعر، کیا فلسفہ ، کیا سائنس، کیا دن ، کیا رات، کیا تو، کیا میں۔
استاد اُس کی باتوں پر مسکراتا رہا۔ وہ خود بھی کبھی طالب علم تھا، تھا بلکہ ابھی بھی ہے۔   

اب جب اُس کی ای میل آئی کہ اگلے مضمون کے لیے رہنمائی درکار ہے، تو استاد کو علم تھا کہ اُسے تیاری کرنی ہے۔

استاد نے طالبہ کا ریکارڈ دیکھا۔ اس آسٹریلین لڑکی کی  تعلیم   خواتین کے ایسے  سکول اور کالج کی تھی  جہاں صرف لڑکیاں پڑھتی ہیں۔ عموماً  ایسے اداروں میں مذہبی رحجان رکھنےوالوں خاندانوں کی لڑکیاں پڑھتی ہیں۔  اس کی تعلیمی کاکردگی پر نظر ڈالی تو دیکھا کہ بیجلرز  کے ساتھ ہی ماسٹرز کو جاری رکھے تھی، اور اس کے نمبروں کی اوسط نوے فی صد تھی۔ اب تک کوئی طالب علم اتنی  اونچی تعلیمی اوسط کے ساتھ استاد کی نظر سے نہ گذرا تھا۔  استاد کو پچھلے ہفتے کی گفتگو کے اندر جو اَن دکھا تھا وہ دِکھنے لگ گیا۔
وہ آئی تو استاد اسے سمجھا نے لگا کہ ریسرچ پروپوزل کیسے لکھی جاتی ہے ۔ سب سے پہلے پرابلم سٹیٹمنٹ آتی ہے، جس کے تین حصے ہوتے ہیں۔ پہلا حصہ کہ اس کام کرنے کی اہمیت کیا ہے؟ اس کو کرنے کا کیا فائدہ ہے؟ اور کتنا بڑا فائدہ ہے؟ اگر کوئی فائدہ نہیں یا کم فائدہ ہے تو ایسی ریسرچ نہیں کرنا چاہیئے۔   دوسرا حصہ کہ اس کو کیسے کریں گے؟ کیا طالب علم نے اس پر وقت لگایا ہے کہ وہ کوئی راہ بتا سکتا ہے  اور وہ راہ کتنی قابلِ عمل ہے۔ دوسرا اور تیسرا حصہ آپس میں منسلک ہیں کہ تیسرے حصے میں  طالب علم نے بتانا ہے کہ اس راہ کی دشواریاں کیا ہیں۔ اس موقع پر ان دشواریوں کو حل کرنے کا طریقہ نہیں بتایا جاتا ، کیونکہ یہ تو  آگے ریسرچ میں پتہ چلے گا، عموماً راہ بدلتی جاتی ہے مگر اہم ہے کہ راہ  کی دِ قت اور دشواری  کے مرحلوں کی شناخت  شروع میں ہی کر لی جائے ۔ اگر  یہ شناخت بہتر ہو گی تو ریسرچ بھی بہتر ہو گی  کہ ہر دشوار مرحلے کو حل کرنا  اپنے تعیں  ایک کامیابی ہے۔

استاد کا ایک  ماسٹرز کا طالب علم  حال  ہی میں ریسرچ پروپوزل لکھ رہا  تھا اور اس نے اپنی پہلا ڈرافٹ بھیجا تھا۔ استاد نے سمجھانے کےلیے رپورٹ کو   پرنٹ کیا اور اس کے چیدہ چیدہ نکتے اُسے  پڑھ کر سنانے لگا۔ 
استاد کو محسوس ہوا کہ وہ کسی بے چینی کا شکار ہے، بات سن رہی ہے مگر کچھ اضطراب ہے،  ہاں ہوں کررہی تھی مگر ساتھ ہی کبھی بال کبھی ماتھا  کُھجاتی ۔  استاد جانتا تھا کہ طلباء کے لیے  ایسے سائنسی مضمون کے تقاضے جلدی سمجھ نہیں آتے  سو وہ  بات کو مختلف پیرائے میں بدل بدل کر بیان کر رہا تھا۔  اس سے پوچھو تو کہتی تھی سمجھ آرہی ہے، مگر نظر آرہا تھا کہ وہ مضطرب ہے۔
آخر میں استاد نے سمجھانا  ختم کیا ، اور پوچھا  کہ اس کا کوئی سوال تو نہیں۔ کہنےلگی ، مجھے کوئی سوال نہیں مگر یہ جو تونے ریسرچ پروپوزل مجھے دکھائی ہے، جو تیرے سٹوڈنٹ فرینک نے لکھی ہے ، اس کے پہلے صفحے کے شروع میں فرینک نے اپنا نام لکھتے ، ایف چھوٹا لکھا ہے اور اس نے مجھے بہت ڈسٹرب کیا ہے۔ تیرے پورے سمجھانے کے دوران میں اس وجہ سے  سخت مضطرب رہی ہوں۔ فرینک کو بتا کہ ایسا پھر نہ کرے۔


استاد دل میں مسکرا اُٹھا، استاد نے جان  لیا  کہ پسِ  الفاظ ہی نہیں بلکہ پس حروف بلکہ پس حرف بھی بہت کچھ ہے۔

استاد خود بھی کبھی طالب علم تھا، تھا بلکہ ابھی بھی ہے۔



Copyright © All Rights Reserved
No portion of this writing may be reproduced in any form without permission from the author. For permissions contact:
aatif.malikk@gmail.com 
#AatifMalik, #UrduAdab, #Urdu,#عاطف-ملک

 

Comments

Popular posts from this blog

اشبیلیہ اندلس کا سفر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک تصویری بلاگ

کرٹن یونیورسٹی میں طالب علموں کی احتجاجی خیمہ بستی کا منظر

رزان اشرف النجار -------------زرد پھولوں میں ایک پرندہ