ریاضی کی نمبر تھیوری اور رسیوں کی گرہیں

تحریر و تلخیص : عاطف ملک

اکشے وینکتش، پیدائش دہلی ۱۹۸۱، دو سال کی عمر میں اپنے والدین کے ساتھ آسٹریلیا آگئے۔ والدہ، سویتا وینکتش نے یونیورسٹی آف ویسٹرن آسٹریلیا سے کمپیوٹر سائنس میں پی ایچ ڈی کی۔ اکشے نے تیرہ سال کی عمر میں یونیورسٹی آف ویسٹرن آسٹریلیا میں ریاضی کی تعلیم شروع کی۔ یونیورسٹی کی سو سالہ تاریخ میں وہ سب سے کم عمر یونیورسٹی شروع کرنے والے طالبعلم تھے۔ انہوں نےیونیورسٹی کی چار سالہ  ریاضی کی ڈگری تین سال میں فرسٹ کلاس فرسٹ مکمل کی اور اس طرح وہ یونیورسٹی کی تاریخ کے کم سن ترین گریجوئیٹ بھی ہیں۔ انہوں نے بارہ سال کی عمر میں فزکس اور ریاضی اولمپکسز کے عالمی مقابلوں میں میڈل بھی حاصل کیے تھے۔ سولہ سال کی عمر میں وہ پی ایچ ڈی کے لیے پرینسٹن یونیورسٹی، امریکہ چلے گئے جہاں سے چار سال بعد انہوں نے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ اس کے  بعد ایم آئی ٹی اور نیویارک یونیورسٹی میں تعیناتی کے بعد وہ ۲۰۰۸ میں سٹینفورڈ یونیورسٹی میں فل پروفیسر ہوگئے۔ ۲۰۱۸ میں انہیں ریاضی کا فیلڈ میڈل دیا گیا جوکہ ریاضی کا نوبل پرائز جانا جاتا ہے۔ 


بائیس اگست ۲۰۱۹ کو پروفیسر اکشے کو انکی مادر علمی، یونیورسٹی آف ویسٹرن آسٹریلیا کی جانب سے اعزازی ڈاکڑیٹ کی ڈگری دی گئی ۔ اسی دن انہوں نے ایک لیکچر "نمبر تھیوری اور جومیٹری" پر دیا جسے سننے کا مجھے بھی موقع ملا۔ یہ مضمون اس لیکچر کا خلاصہ ہے۔

مہمان کا لیکچر سے قبل تعارف کراتے ہوئے بتایا گیا کہ ایک تیرہ سالہ بچے کے لیے یونیورسٹی ایک مشکل کام ہوسکتی ہے، اور اکشے کا یونیورسٹی کا قیام واقعی مشکل تھا گو یہ مشکل ان کے ساتھی طالبعلموں کے لیے تھی۔ یونیورسٹی ریکارڈ کے مطابق کسی بھی مضمون میں انکی کم سے کم اوسط پچانوے فیصد رہی، جبکہ انکی پوری  ڈگری کی اوسط اٹھانوے عشاریہ چھ تھی۔

اپنے لیکچر میں پروفیسر اکشے نے ریاضی کے اعداد اور جیومیٹری میں تعلق پر بات کی۔ یہ بات سب جانتے ہیں کہ ریاضی کے تمام اعدار مفرد یعنی پرائم نمبر کی باہمی ضرب سے حاصل کیے جاسکتے ہیں مثلاً  پندرہ کا عدد تین اور پانچ کی ضرب سے مل جاتا ہے۔ ان نمبرز کو فیکٹر بھی کہتے ہیں اور ان نمبروں کے جاننے کے عمل کو فیکٹرائیزیشن کہتے ہیں۔ چھوٹے نمبروں کے لیے یہ فیکٹر معلوم کرنا آسان ہے، مگر بڑے نمبروں کے لیے یہ فیکٹر پتا کرنا مشکل ہوتا چلا جاتا ہے، مثلاً ایک نمبر جس میں پچاس زیرو ہوں اور دوسرے دو عدد شروع  میں لگے ہوں تو اس نمبر کے مفرد یعنی پرائم فیکٹر پتا کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ کمپیوٹر بھی یہ کام آسانی سے نہیں کرپاتا، اسی لیے اس ریاضی کے مسلے کو آج کل کرپٹوگرافی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کی مدد سے ایک پیغام کی شکل بدل کرایسے کر دی جاتی ہے کہ اگر کوئی غیر متعلقہ وہ پیغام وصول بھی کرلے تو اسے سمجھ نہ پائے۔  پیغام کی شکل بدلنے میں ایک کنجی استعمال کی جاتی ہے جو کہ ایک بڑے نمبر کے فیکٹرز کی مدد سے بنی ہوتی ہے، اور کمپیوٹر کی مدد سے بھی آسانی سے پتہ نہیں چل سکتی۔ یہ کنجی مگر پیغام وصول کرنے والے پاس پہلے سے ہونی چاہیئے تاکہ وہ پیغام کو اپنی اصل شکل میں لاسکے۔
   
لارڈ کیلوئین نے ۱۸۶۰میں ایٹم کے ماڈل کے بارے میں تھیوری دی تھی کہ ایٹم ایک دوسرے سے بل کھاتے دھاگوں کی مانند ہیں۔ یہ تھیوری بعد کی ریسرچ کی بنیاد پر مسترد کر دی گئی، مگر نیوکلیس میں موجود ڈی-این-اے آج بھی بل کھاتے دھاگوں کی شکل میں مانے جاتے ہیں۔  آج ریاضی کو اتفاقاً ایک عجب بات پتہ چلی ہے کہ مفرد نمبروں اور رسیوں کی گٹھانوں میں مماثلت ہے۔ ان کا ریاضی کے لحاظ سے ایک ہی طرز عمل ہے۔ اگر آپ ایک سائز کی کچھ رسیاں لیں اور پھر ان کے سرے لے کر انکی گٹھانیں ایک دوسرے کے ساتھ لگائیں توآپ کئی کمبینیشن سے یہ گرہیں لگا سکتے ہیں۔ جیسے جیسے آپ کی رسیوں کی تعداد بڑھتی چلی جائے گی، انکی گٹھانوں اور رسیوں کی ایک دوسرے پر چوڑیوں کے سوالات کی خاصیت بعین بڑے نمبروں کی مفرد فیکٹرائیزیشن کی مانند ہوجاتی ہے۔ ریاضی دانوں نے پتہ چلایا ہے کہ دو اعشاریہ تین رسیاں ریاضی کے ایک پرائم نمبر کے برابر ہیں، جبکہ انکے بل یا دوسرے الفاظ میں چوڑیاں فیکٹرازیشن کے مطابق ہوتے ہیں۔  ایک نمبر کیسے فیکٹرائز ہوتا ہے اور کیسےرسیوں کے باہمی بل بنتے ہیں، شماریات یعنی سٹیٹسکس کے مطابق دونوں سوالات میں گہری مماثلت ہے۔ سو نمبر تھیوری تین ڈائمینشن میں رسیاں اور گرہیں ہیں، مگر نمبر تھیوری میں ایک نمبر تو دوسرے سے فرق ہے مگر ایک گٹھان دوسرے سے کیسے فرق ہے؟ اس کا ابھی فرق ظاہر نہیں ہے۔ انسانی سوچ ابھی تین ڈائمینشن سے اوپر کی مماثلت کو بھی نہیں پہنچ پائی۔

ریاضی میں گٹھانوں کی تھیوری اب ریسرچ کا ایک شعبہ ہے، جونز پولینومیل اس سلسلے میں ایک دریافت ہے جو ان گٹھانوں کا فزکس میں استعمال بتاتی ہے۔ ان گٹھانوں کا 
استعمال اب کوانٹم فزکس میں دیکھا جارہا ہے۔ 

لیکچر کے آخر میں سوالات کے جوابات دیتے ہوئے پروفیسر اکشے نے کہا کہ بیان کردہ مماثلتیں اتفاقاً یعنی حادثاتی طور پر پتہ چلی ہیں۔ گمان ہے کہ ایسی کئی اور مماثلتیں ہیں جو ابھی انسانی علم میں نہیں۔ 

ایک مزاحیہ نوٹ پر اگر آپ کسی ریاضی دان کے جوتوں کے تسمے آپس میں الجھے پائیں تو جان لیجیئے گا کہ وہ کسی بڑے نمبر کے فیکٹر تلاش کر رہا ہے۔ ویسے بھی بڑے کہہ گئے ہیں کہ جھک کر ہی بڑائی پائی جاتی ہے۔

Copyright © All Rights Reserved :
No portion of this writing may be reproduced in any form without permission from the author. For permissions contact:
aatif.malikk@gmail.com

Comments

Popular posts from this blog

Selection of Private Hajj Operators: Considerations

کیااتفاق واقعی اتفاق ہے؟

اشبیلیہ اندلس کا سفر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک تصویری بلاگ