عطا کے لمحے


تحریر : عاطف ملک

جمعہ کو مسجد بھری ہوتی ہے۔ ایسا ملک جہاں مسلمان اقلیت میں ہوں، وہاں مسجد بھی فرق ہوتی ہے اور نمازی بھی فرق۔  مختلف رنگ ونسل کے، مختلف شباہتوں کے، مختلف لباس پہنے، مختلف زبانیں بولتے، مختلف طریقوں سے نماز پڑھتے، مختلف طرز کی تلاوت کرتے۔ ایسی رنگا رنگی کہ ہمیشہ فروٹ چاٹ یاد آجاتی ہے، مختلف ذائقے، مختلف رنگ، مختلف بناوٹ کے پھل مگر سب میٹھے۔  معاف کیجیئے گا، رمضان ابھی ختم ہوا ہے، عبادت اور فروٹ چاٹ دونوں کا ذائقہ ابھی تازہ ہے۔

 اور اس مسجد کی کہانی فرق ہے۔

اس مسجد کے پیچھے طویل قانونی جنگ ہے، کئی سال کی عدالتوں کی پیشیاں، وکیلوں کی فیسیں اور لوگوں کا جذبہ، مشکلوں کے باوجود ناقابل شکست جذبہ۔ یہ مسجد ان مختلف شباہتوں، لباسوں، زبانوں کے لوگوں کی  انفرادی کہانیوں سے ملتی  جلتی ایک اجتماعی کہانی ہے۔ 

دیارِ غیر میں بسنا ایک جدوجہد ہے۔  معاشرہ فرق، رہن فرق، لباس فرق، زبان فرق، پودے فرق، چرند فرق، مذاق فرق، قانون فرق، اقدار فرق اور پھر یہ آکر بستے خوددار فرق۔ اس فرق کو بڑھاتی ایک نسل پرستی کی دیوار بھی کھڑی ہے۔ سفید نسل پرستی کی دیوارجو دوسری انسانی نسلوں کے خوں سے رنگدار ہے، کئی صدیوں، کئی براعظموں کی مختلف نسلوں کے خوں سے رنگدار؛ آسٹریلوی اب اوریجنل گم گشتہ نسلیں، براعظم امریکہ کےمقامی باشندوں کی ماری گئی نسلیں، بنگال کا خود ساختہ قحط، افریقہ اورایشیا کی مختلف کالونیز میں کیا گیا قتل عام، سیاہ فام غلاموں کی خون آلود تجارت، ایک لمبی فہرست ہے، یہ دیوار کئی خوں سے رنگدار ہے۔ 

 دیارِغیر میں بسنا ایک جدوجہد ہے۔ پہلی حاصل کی ہوئی تعلیم بے وقعت ہو جاتی ہے، سالوں کے تجربے کی اہمیت نہیں رہتی۔ جب نام کے ساتھ محمد، احمد، فاطمہ لگا ہو تو نوکری کے دروازے مزید بند ہوتے چلے جاتے ہیں۔ کئی عقلمند کہتے ہیں کہ مل جائیں، مل جائیں کہ میں اور تو کی تمیز ختم ہو، اقدار، لباس، معاشرہ سب کو آگے بڑھ کر گلے لگا لیں۔ فرق مٹے گا تو ہی آسانی ہو گی، بڑھوتی تب ہی ہوگی۔ ایسا شوربے دار سالن بن جائے کہ اجزاء اپنا اپنا انفرادی ذائقہ قربان کرکے ایک ہی سواد بن جائیں۔ مگر ہم جیسے فروٹ چاٹ کے شوقین بے عقلے کہتے ہیں کہ نہیں، اپنا اپنا رنگ، اپنی اپنی بناوٹ، اپنا اپنا ذائقہ رکھیں، میٹھا اور فرق، سیب، ناشپاتی، آڑو، انگور، آم، خربوزے کے ٹکڑے، ابلے چنے۔ یک رنگ شوربے دار سالن نہ بنیے، فروٹ چاٹ کی رنگا رنگی بہت آگے ہے۔ معاف کیجیئے گا، رمضان ابھی ختم ہوا ہے، عبادت اور فروٹ چاٹ دونوں کا ذائقہ ابھی تازہ ہے۔

 نئی زمین پر لگتے یہ پودے سخت جان ہیں۔ اپنی محنت اور جدوجہد سے تنگدستی سے نکل کر آسانی کی طرف جا نکلتے ہیں، مگر یہ سفر کئی سال لے جاتا ہے، برسوں پر مشتمل کٹھور دن اور دشوار راتیں۔ اور پھر تنگی کے بعد آسانی ہے۔ یہ مشترکہ کہانی ہے۔ کسی سے بھی بیٹھ کر سن لیں، بیانیہ فرق ہوگا مگر کہانی ایک ہی ہے۔ 

اس مسجد کی بھی ایک کہانی ہے۔

شہر میں موجود کئی مذہبی اداروں کے زیر انتظام چلتے سکولوں کی مانند یہ ایک کرسچن سکول اور اس سے منسلک چرچ تھا۔ مذہب بے وقعت ہوا تو یہ ادارے بھی بے قدر ہو گئے۔ سخت جان پودوں نے جانا کہ یہاں ہم اپنی آبیاری کرسکتے ہیں، سو مل کر پیسے اکٹھے کیے اور دونوں ادارے خرید لیے۔ یہ کوئی آسان کام نہیں تھا، ایک ایک دانہ جمع کیا گیا، لوگوں نے قربانی دی، اُن لوگوں کی قربانی جو پہلے ہی قربان گاہ میں تھے۔ کئی ماہ لگ گئے کہ منزل تک پہنچ پائے۔

پھر جب اس مسجد میں نماز شروع کی تو شہری انتظامیہ آن پہنچی کہ یہ تو سکول ہے، عبادتگاہ نہیں۔ یہاں عبادت نہیں  ہوسکتی۔ بحث یہ تھی کہ یہ سکول سے منسلک سہی مگر چرچ  تو تھا سوعبادتگاہ تو تھی۔ مذہب کے بے وقعتے چاہتے ہیں کہ سارے مذہب ہی بے وقعت ہوں، بے سمجھے ہی سمجھدار ہوں۔ اپنے آس پاس دیکھ لیں، کیا کیا نہ کہانیاں سنائیں گے، کیا کیا نہ تاویلیں لائیں گے، مگر دل والے کہاں مانتے ہیں۔ عقل تو ایک حالت میں رہتی ہے، دل روشن یا تاریک ہوتے ہیں۔ معاملہ عدالت میں جا پہنچا، کئی سال سخت جان پیشیاں بھگتے رہے، دل والے وکیلوں کی فیسیں بھرتے رہے۔ برسوں بعد فیصلہ آگیا کہ چرچ عبادت گاہ تھی سو مسجد کی صورت بھی عبادت گاہ یہاں قائم ہوسکتی ہے۔ آشفتہ سر اس قطعہ زمین پر سجدہ ریز ہوئے کہ تنگی کے بعد آسانی ہے۔

جمعہ کو مسجد بھری ہے۔ امام ایک جوان آدمی ہے، یہیں پلا پڑھا، مقامی تلفظ میں انگریزی بولتا۔ خطبے میں بتایا کہ ایک آسٹریلین مرد آج نماز کے بعد اسلام قبول کرے گا۔ نماز کے بعد ایک نوجوان آگے آگیا، عمر پچیس سال کے لگ بھگ، کلین شیو، کانوں میں بالیاں ڈلی ہیں۔ یہ جیسن ہے، جو آج مسلمان ہوگا۔

وہاں مسجد میں بیٹھے ہوئے خیال آرہا تھا کہ یہ کون ہے؟ کیوں ایک آزاد زندگی سے بندھنوں والی زندگی چن رہا ہے؟ آزاد، مادر پدر آزادی سے قواعد والی زندگی کا سفر، عقل پریشاں ہے، مگر دل جواب جانتا ہے۔ یہ جیسن کیوں اسلام قبول کررہا ہے؟ کبھی اکیلے میں ملا تو اس کی کہانی سنوں گا۔ مسجد کی دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھے ذہن میں زندگی کے کئی مقامات پر ملے نومسلم یاد آرہے تھے۔ ہر ایک کی مختلف کہانی ہے، عام کہانی سے لیکر گمان سے بھی آگے کی داستان۔ ہر رنگ ملتا ہے، آسانی، مشکلات، جدوجہد، ذہنی اضطراب، مختلف راستے مگر ایک منزل۔

خیال میں وہ ٹین ایجر گورا لڑکا سیف آیا جس نے کسی مسلمان سے ملے بغیر اسلام قبول کرلیا تھا، اور جب پہلا مسلمان اسے زندگی میں ملا تو اُس مسلمان کے نام پر اپنا نام سیف رکھ لیا تھا۔ سوچ سے کہیں آگے کی کہانی ہے۔ کبھی سوچا نہ تھا کہ ہائی سکول میں پڑھتے طالبعلم کو لائبریری سے میلکم ایکس کی زندگی کی کتاب کیا ملتی ہے کہ اس کم عمر کی کتابِ زندگی کے ورق ہی بدل جاتے ہیں۔ اُس نوعمر نے اسلام کے لیے بڑی قربانی دی تھی کہ گھر والوں نے عاق کردیا اور وہ دربدر تھا مگر سخت جان تھا کہ کھڑا تھا۔ اسی مسجد میں ایک گورا چٹا شاہد نام کا ہے، جسے میں افغان سمجھتا تھا۔ پتہ لگا کہ تیس سال قبل ایک آسٹریلوی گورا ایسا مسلمان ہوا کہ بود وباش اور اطوار ہی نہ بدلے بلکہ نام بھی شاہد رکھ کر مسجد کا خادم ہوگیا۔ ہر نماز پر موجود، مسجد کی صفائی سے مرمت کے کاموں میں جتا ہوا۔

ذہن میں ایک عالم کا خیال بھی آگیا، ڈاکٹر مراد ولفریڈ ہوفمین۔ مسافر ایک سفر کر کے ان کا اور ڈاکٹر این میری شمل کا لیکچر سننے گیا تھا جس میں ان کے اسلام لانے کی کہانی بھی سنی تھی۔ کیتھولک پیدا ہوئے، ہاورڈ یونیورسٹی سے ماسٹرز کی ڈگری، میوںخ یونیورسٹی سے قانون میں پی ایچ ڈی، جرمنی کے کئی ممالک میں سفیر رہے، کئی کتابوں کے مصنف، کئی اعزازات کے حامل۔ دورِ سفارتکاری میں الجزائر کی جنگِ آزادی کو قریب سے دیکھا، وٹگن سٹاین، پاسکل، سوائن برن اور کانٹ جیسے فلسفیوں کو پڑھ کر خدا کے وجود کے قائل ہوئے، اسلامک آرٹ کے گرویدہ تھے اور کئی برس اسلام کو پڑھا۔ فلسفی اور عقلی آدمی تھے۔ عجب کہانی سنائی، کئی سال سے اسلام کے متعلق پڑھ رہے تھے مگر مسلمان نہ ہوئے تھے۔ عربی سیکھ لی تھی، قرآن پڑھتے اور ساتھ  رکھتے تھے۔ مراکش کی سرحد پر کسٹم والوں نے روکا، اور سامان چیک کرتے سپاہی نے قرآن کو ایک طرف اچھال دیا۔ اُس سپاہی سے غصہ ہو گئے۔ سپاہی نے پوچھا کہ کیا تم مسلمان ہو؟ جواب دیا نہیں۔ اس نے کہا،  تمہیں پھر کیا مسلہ ہے؟ برس ہا برس کے سفر کی منزل عجب طریقے سے سامنے آن کھڑی ہوئی۔  اُسی وقت فیصلہ کر لیا کہ مسلمان ہونے کا وقت آگیا ہے اور ایسے مسلمان ہوئے کہ کئی کتابیں اپنے نئے مذہب پر لکھیں۔

غرناطہ میں الحمرا محل کے سامنے کی پہاڑی پر بنی نئی مسجد میں ایک سویڈش باریش مسلمان کے ساتھ عصر کی نماز پڑھی تھی۔ عجب شخص تھا، سکون پھیلاتا۔ وہ استاد تھا، سویڈن میں بچوں کو سکول میں پڑھاتا۔ اسلام کو پڑھا، سوچا اور پھر قبول کر کے زندگی پر طاری کر لیا۔ ایک نومسلم دوست اور ساتھی رابرٹ فلپس ہے، لمبا عربی چغے پہنے مسجد میں کوئی گورا چٹا مراکشی بربر ہی لگتا ہے۔ زندگی کے ایک سخت مقام پر اس نے میری بہت مدد کی۔ یہ لوگ فرق ہیں، ہم پیدائشی مسلمانوں سے فرق۔ اپنی تحقیق، اپنی مرضی سے مسلمان ہوئے، کئی راستوں سے منزل کو آتے۔


جیسن امام کے سامنے بیٹھا ہے۔ امام اسے انگریزی میں ایمان کے بارے میں بتا رہا ہے۔ مسلمان اللہ پر، فرشتوں پر، بھیجے گئے رسولوں پر، نازل کردہ کتابوں پر، قیامت پر اور مر کر جی اٹھنے پر اور ہر عمل کے اللہ کی طرف سے آنے پر یقین رکھتا ہے۔  اس کے بعد امام اسلام کے پانچ اراکین کلمہ، نماز، روزہ، حج اور زکوات کا بتا رہا ہے۔  اب ایک اہم سوال۔

جیسن، کیا تم اپنی مرضی سے بغیر کسی خوف، لالچ کے اسلام قبول کر رہے ہو؟

جی، میں اپنی ذاتی مرضی سے مسلمان ہو رہا ہوں۔

ٹھیک، میں اب تمہیں کلمہ پڑھاتا ہوں۔ میں ایک ایک لفظ کی صورت میں کلمہ پڑھوں گا کہ تمہیں ادا کرنے میں مشکل نہ پیش آئے۔ تم میرے الفاظ دہرانا۔ اور اس کے بعد میں انگریزی میں اس کا ترجمہ تمہیں بتاونگا۔

امام ایک ایک لفظ کی شکل میں کلمہ پڑھ رہا ہے۔ انگریزی بولنے والوں کے لیے عربی کے لفظ ادا کرنے اتنے آسان نہیں ہوتے، مگر جیسن اپنے تلفظ میں ان الفاظ کو دھرا رہا ہے۔

ماشاء اللہ بھائی، اب آپ مسلمان ہیں۔ آپ کا ہم پر اور ہمارا آپ پر حق ہے۔ آپ آج ایک بہت بڑے مقام پر ہیں ۔ آپ ہم سے بہت بہتر ہیں، ہمارے لیے دعا کریں۔ آپ گناہوں سے ایسے پاک ہیں جیسے ایک نومولود بچہ جو دنیا میں ابھی آیا ہے۔ برادر جیسن، ہمارے لیے دعا کریں۔ امام  نومسلم جیسن سے دعا کی درخواست کررہا ہے۔

نمازی جیسن کے گرد جمع ہیں۔ وہ اسے مبارک باد دے رہے ہیں، وہ اس سے بغلگیر ہورہے ہیں۔ چند ساعتوں قبل کا  اجنبی اب اس خاندان کا فرد ہے۔ ساتھ بیٹھے بنگالی کی آنکھوں میں آنسو ہیں، وہ تھرتھراتی آواز میں جیسن سے دعا کی درخواست کر رہا ہے۔ 

جیسن سے بغلگیر ہوتے ایک نمازی نے اپنی ٹوپی اتار دی ہے، وہ اب یہ ٹوپی جیسن کے سر پر پہنا رہا ہے۔ یا اخی، یہی تحفہ میرے پاس اس وقت ہے، قبول کیجیے۔  میرے سے آگے بزرگ نے تمام نمازیوں کی نگاہوں سے بچ کر اپنے بٹوے سے بیس ڈالر کا نوٹ نکال کر اپنے ہاتھ میں چھپایا ہے۔ جیسن سے بغلگیر ہوتے انہوں نے چپکے سے وہ نوٹ جیسن کی جیب میں ڈال دیا۔ میں دیکھتے ہوئے بھی ظاہر کر رہا ہوں جیسے کچھ نہیں دیکھا۔

یہ عجب لمحہ ہے۔ بیس ڈالر کا نہیں، بیس ڈالر کو چھپ کر کسی کے جیب میں ڈالنے کا لمحہ، اپنی ٹوپی اتار کر لمحوں قبل کےاجنبی کے سر پر پہنانے کا لمحہ۔  آنکھوں میں چمکتے آنسو اور تھرتھراتی آواز میں ایک نومسلم سے دعا کی درخواست کرنے کا لمحہ۔

یہ لمحے عقل کی گرفت میں نہیں، یہ دل کو روشن کرتے لمحے ہیں۔ یہ بے غرضی کے لمحے ہیں۔ ایسے لمحے بہت کم ملتے ہیں۔ یہ لمحے ڈّھونڈنے سے نہیں ملتے، دن رات کی مزدوری کر کے بھی نہیں ملتے۔ یہ عطا کے لمحے ہیں۔ عطا کے لمحے کرم سے ملتے ہیں، صرف کرم سے۔ 

Copyright © All Rights Reserved :
No portion of this writing may be reproduced in any form without permission from the author. For permissions contact:
aatif.malikk@gmail.com

Comments

Popular posts from this blog

Selection of Private Hajj Operators: Considerations

کیااتفاق واقعی اتفاق ہے؟

اشبیلیہ اندلس کا سفر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک تصویری بلاگ