تحریر : عاطف ملک انجینرنگ کی پڑھائی مکمل کی تھی اور مزید پڑھنے کا شوق تھا۔ ہر ایک سے مشورہ کر رہا تھا کہ مزید کیا پڑھائی کی جائے۔ ان دنوں انجینئرنگ کے بعد ایم بی اے کرنے کا رجحان تھا، سو ہمیں بھی یہی خیال ہوا کہ ایم بی اے کیا جائے۔ ملک میں آئی بی اے کا بڑا نام تھا، سو ہم کراچی کو عازم سفر ہوئے۔ نوکری بھی کراچی میں کرلی اور شام کو آئی بی اے میں داخلہ لیکر پڑھائی بھی شروع کر دی۔ کراچی ہمارے لیے فرق تھا۔ عمارتیں وہ اونچی کہ دیکھیں تو ٹوپی گر جائے، اور غریب پرور شہر یوں پھیلا تھا کہ سوچ اور نگاہ دونوں تھک کر راہ میں بیٹھ جائیں۔ شہر تو شہر تھا لوگ بھی لاہور سے فرق تھے، خوراک میں ہی تیزی نہ تھی، افراد کے انداز میں بھی تیزی تھی۔ لوگ کام کے معاملے میں بڑے پروفیشنل تھے، لاہوری لا ابالی پن نہ تھا۔ کراچی کی سڑکوں پر آواز لگاتی بسوں کا شور تھا، صدر، کیماڑی، بندر روڈ کی آوازیں لگاتے کنڈ کٹر اور رنگین نقش و نگار سے مزین بسیں۔ ان بسوں پر بہت سفر کیا۔ شام کو آئی بی اے کے صدر کیمپس کے لیے انہیں بسوں پر جاتا۔ چار پیسے پاس ہوتے تو رکشہ بھی کر لیتا، بعد میں ایک موٹر سائیکل خرید لی تو ...