کتابی افسر، کمانڈو سنتری اور آٹھ سو میٹر کی دوڑ سے سیکھا سبق

تحریر : عاطف ملک

وہ فضائیہ کی اکیڈمی سے پاس آوٹ ہوا تو کراچی ملیرپوسٹنگ ہوئی۔ اکیڈمی میں اتھلیٹیکس میں حصہ لیتا تھا، 400 میٹر کی دوڑ خصوصی پسند تھی اور بنیادی طور پر اسی دوڑ کے تعلق سے جانا جاتا تھا۔ فائنل ٹرم میں بھی وہ اس دوڑ میں فاتح رہا تھا۔ 400 میٹر کی دوڑ کوئین آف دی ریسز کہلاتی ہے، اس میں سٹیمنا اورڈیش یعنی رفتار دونوں ضروری ہوتے ہیں۔ اگر آپ شروع دوڑ میں زیادہ زور لگا دیں تو 300 میٹر کے بعد ختم ہو ں گے، اوراگرشروع میں آہستہ ہوں تو آخر میں دوسرے بھاگنے والوں سے اتنا فاصلہ ہوگا کہ اُنہیں نہ پکڑ سکیں گے۔ آپ کا سٹیمنا ایسا ہو کہ تین سو میٹر کے بعد ایک بھرپور ڈیش لگا سکیں۔ ایسی قوت کی دوڑ آخری سو میٹر میں لگائیں کہ فنش لائن کے بعد جسم میں زور کا ایک قطرہ بھی نہ ہو۔ دوڑ کے بعد آپکی ٹیم کے ساتھی آپ کو اٹھاتے تھے اور کمبل میں لپیٹ کر خوب دباتے تھے۔ گرم کمبل اورتین لوگ دباتے ہوئے، وہ لوگ جو آپ کے ساتھ اس مقابلے کے جوش میں ڈوبے ہوتے۔ ہاتھ دباتے اور زبان متواتر چل رہی ہوتی، مقابلوں کے اتراوچڑھاو پر اپنے انداز کی روشنی، آواز میں جوش اور کہیں ہار کے تذکرے کا دکھ ۔ کائنات اس لمحے سمٹ کرآپ کے ساتھ لیٹی ہوتی، کیا خبر کہ خدا بھی اس لمحے پاس مسکرا رہا ہو۔ خدا خوبصورت ہے اورخوبصورتی کو پسند کرتا ہے۔ اور اُس لمحے کیا چیز ان بھاگتے لڑکوں اوران کےجذبے سے خوبصورت ہو سکتی ہے؟ جوان جسم، پسینے سے چمکتے عضو، چہرے مقابلے کے جوش سے دمکتے، اور سب سے بڑھ کر مقابلے کا اندر سے ابھرتا ہیجان اور ان لوگوں کی پُرجوش آوازیں۔ آپ اس دنیا سے الگ کسی اور دنیا میں ہوتے ہیں؛ ایک اور جہاں، جوش، مقابلے، جوانی، بہادری کا جہاں۔ ایسا جہاں جہاں کوئی کمزور نہیں، کوئی معذور نہیں، کوئی دکھی نہیں ۔ سب کے اونچے جذبے، سب نگاہ بلند، سب محنتکار۔

کیا  کائنات میں اس وقت کوئی منظر اس سے خوبصورت ہو سکتا ہے؟

اکیڈمی سے نکل کر وہ پہلی پوسٹنگ ملیر پہنچا۔ ملیراچھی جگہ تھی، کراچی میں رہتے ہوئے بھی کراچی سے باہر۔ موسم بہتر، ہریالی چہار سو، ٹریفک کم اور سکون زیادہ ۔ کئی معاملات تھے، ہفتے میں تین دن لازمی شام کو کھیل کےمیدان میں حاضری ہوتی تھی۔ پی ٹی ہوتی اور پھر باسکٹ بال یا دوسرے کھیل ہوتے۔ غرض اکیڈمی سے نکل کر بھی اکیڈمی میں تھے۔ مختلف رنگ کے اصحاب تھے، میس کا کک چاچارفیق تھا جس سے بہتر بریانی کا ذائقہ کسی کے ہاتھ میں نہیں دیکھا کہ کراچی شہر میں رہنے والے افسر بھی گھر جاتے اُسکی بنی بریانی لے کر جاتے تھے۔ ایک گروپ کیپٹن تھے کہ زندگی میں ان سے بڑا چھوڑو نہ دیکھا۔ ان کی بیان کی گئی بات پر یقین لانے کے لیے آدمی  کا رٹا باز طالبعلم ہونا ضروری تھا، سمجھے بغیر رٹا ۔ اور لوگ بھی رٹا لگا لیتے تھے کہ سمجھنے میں نوکری کے امتحان میں فیل ہونے کا خطرہ تھا۔

 ایک ساتھی انجینئر تھا جو ایک پرندے کے نام سے جانا جاتا تھا، تپتی دوپہر میں بھاری فوجی جوتے پہنے، کمر پراینٹیں  لادے  رہائش کے قریب کے میدان میں بھاگتا رہتا تھا۔ قابل دست اندازی پولیس ہوتا اگر آپ اس سے کسی کم درجے کا کام بھی اپنے کسی ماتحت سے لیتے، مگر وہ پرندہ کہتا تھا کہ پرندے سے شاہین بنوں گا کہ کمانڈو کورس پر جاوںگا۔ انجینیر زمینی مخلوق تھے، محنت کار، توقعات ان سے یہ تھیں کہ مشینری کے پرزوں سے ہاتھ اور منہ رنگے ہوں اور ذہن بھی پرانی مشینوں کی رفتار کےساتھ چلے، سوچ کم، رٹا زیادہ۔ پرانی مشینوں پر کام کرنیوالوں کے ذہن تیز ہوں تو انتظامیہ مشینوں کو تیز کرنے کی بجائے ان کے ذہنوں کی رفتارآہستہ کرنے کی فکر میں رہتی ہے۔ سو پرندے کو کہا گیا کہ اقبال سے متاثر ہونے کی بجائے اقبال مندی پرتوجہ دے۔ مگروہ نہ مانا، بھاری فوجی جوتے پہنے، کمر پر اینٹیں لادے بھاگتا رہا۔ یار لوگوں نے سوچا، خود ہی اینٹوں کے بوجھ سے گرے گا، مگر کسے پتہ تھا کہ جذبہ سچا ہو تو پرندہ فوجی جوتوں اورکمر پرلادی اینٹوں کے ساتھ بھی اڑ جاتا ہے۔ چراٹ جا پہنچا اورایک سال کا کمانڈو کورس کیا، وہی بھاری فوجی جوتے اورکمر پراینٹیں۔ فرق یہ تھا کہ سال کے بعد سینے پر پیلے ہتھے کی تلوار اور سفید پروں کا کمانڈو بیچ تھا؛ پہلا کمانڈو انجینیئر۔ واپس آیا تو کمانڈو انجینیئر کو مشینوں کی سست رفتار، ذہن کی پرواز، زمیں میں ٹھکی طنابیں، کمانڈوکا فخرسب ایسے بدست و گریباں ہوئے کہ پرندے نے ایک اڑان بھری اور دور پرواز پر چل نکلا۔

انہیں دنوں بیس پر یونٹس کے درمیان اتھلیٹیکس کے مقابلوں کا اعلان ہوا۔ 

اب بیس پرایک جی سیزکی یونٹ تھی۔ جی سیزگراونڈ کمبیٹرز کا مخفف ہے، سمجھیے پیدل فوج کے لوگ ہیں۔ لمبے تڑنگے، صبح شام دوڑ، ورزش، خوراک، خوب کھاتے اورخوش رہتے۔ زندگی بچوں کی آنکھ سے گذارتے تھے، بڑوں کے کہے کو بغیرسوچے مانتے، اور ذہن پربوجھ ڈالنے کی بجائے جسم پر وزن اور ٹانگوں کی دوڑ میں مگن رہتے تھے۔ ان کے زیادہ انچارج کمانڈو تھے۔ انہیں میں اُس کے کمرے کے ساتھ رہتا  ہنزہ کا گورا چٹا کمانڈو فلائیٹ لیفٹیننٹ تھا۔ اسکا تکیہ کلام لالہ تھا، سو وہ سب کا لالہ تھا۔ لالے کا اردو کا تلفظ  فرق تھا، مگر گرمائش تلفظ میں نہیں لہجے میں ہوتی ہے۔ زندگی کو بھی اسی گرمائش سے گذارتا تھا؛ خوش رہ کر، بغلگیر ہوکر، بازوں کی طاقت سے اٹھا کر۔ وہ ہر دوسرے ہفتے ملک سے باہر ہوتا تھا۔ 

ہوائی جہازوں کے اغوا کے بچاو کے لیے ان دنوں پی آئی اے کی بین الاقوامی پروازوں میں مسلح ائر گارڈ سوار ہوتے تھے اورلالہ ایر گارڈ تھا۔ جس دن وہ فجر کے وقت یونٹ میں سپاھیوں کے ساتھ ورزش میں نہ ہوتا توجان لیں کہ اُس رات وہ لندن، میلان، ایتھنز، فرینکفرٹ جاتی کسی پرواز میں مسافروں کی قطار میں کھڑا ہے۔ قمیص کے نیچےچھپا پستول، لمبے بوٹوں میں خنجر لیے وہ کوئی یونانی سیاح ہی لگتا ہوگا۔ پرانے پہلوانوں کی طرح لنگوٹ کا مضبوط تھا، ایرہوسٹسوں یا ایک دفعہ یورپ کی یاترا کر آنے والوں کی حسرت بھری کہانیوں کے برعکس لالے کی  پاس اپنےعلاقے کی ہی کہانیاں تھیں۔ لالے کے لیے ہنزہ کی خوشبو پیرس کے یوڈی کلون کی خوشبووں پر بھاری تھی، اور کسی کی جھکی نگاہیں کئی بے باکیوں سے زیادہ  پُرکشش تھیں۔ 

اوراُس کا دوڑ میں مقابلہ لالے کے تیار کردہ سپاھیوں سے تھا۔

اور وہ کون تھا، کتابوں سے نکلے وہ سوال حل کرتا رہا تھا جو کبھی زندگی کے سوالوں کے قریب بھی نہ آئے تھے۔ ریاضی کے مسلوں سے الجھتے کئی راتیں الجھ گئی تھیں۔ بجلی جانے کی صورت میں موم بتیوں میں پڑھائی نے اپنا نشان عینک کی صورت میں چھوڑ دیا تھا۔ اورنوکری بھی ایسی تھی کہ ریڈاراور وہ دونوں ہی دن رات چلتے تھے۔ آدھی رات کو فون بج اٹھتا تھا کہ کہیں دور گھومتے ریڈار نے گھومنے سے انکار کردیا۔ اب اقرار کے لیے اوزاروں کا ساتھ  لیکردوری کے سفر پرنکلو کہ  اگلی راتیں چاند کی چاندنی میں نہیں کھڑے ٹرک کے چوکھٹے کے اندر ریڈار کے پرزے بدلتے گذرنی تھیں۔ ایسے میں کچھ ہی لوگ تھے جو بتاتے تھے کہ یہ ملک اور قوم کی ذمہ داری ہے، عبادت ہے، فرض ہے۔ زیادہ تراوپر والوں سے ڈراتے پھرتے تھے، خود بھی پریشان اور فون کر کر کے دوسروں کو بھی پریشان کرتے۔ ہنزہ کے لالے کم تھے، یورپ کی ایک یاترا کر کے آنے والے حسرتی زیادہ تھے۔ 

ایسے میں دوڑ۔ کون جانتا کہ اس ذہنی مشق باز کی ٹانگوں میں زور بھی ہے، اور وہ زور کہ پیدل فوج کے سپاھیوں کے ساتھ دوڑ سکے۔

سو دوڑ کا دن آ گیا۔ پوری بیس کے سامنے ایک کتابی بھاگا۔ ایرمینوں نے کبھی ایسا انجینیئر نہ دیکھا تھا، جس نے عینک  کو مضبوط دھاگے سے باندھا کہ دوڑ میں گر نہ جائے اور عام  جوتے بدل کرمیخوں والے سپائیکس پہن لیے۔ وہ دوڑ کہ چارسو میٹرمیں سو میٹر کے فاصلے سے جیت اور آٹھ سو میٹر میں دو سو میٹر کے فاصلے سے جیت۔ ایرمینوں نے کتابی کو گلے لگا لیا۔ انہیں کسی کو بتانے کی ضرورت نہ تھی کہ زمین پر پاوں دھرے افسر اتنے عام نہیں ملتے۔ 

اُدھر کتابی نے عینک کی ڈوری کھولی ، جوتے بدلے اور ریڈار کے ٹرک میں پرزے بدلنے چلا گیا۔  اور ساتھ ہی کتاب کھول کر ذہنی مشق شروع کر دی، وہیں سے جہاں سے کتاب الٹ کر میز پر رکھی تھی۔

تین سال گذرے اور تبادلہ ہوگیا ۔ نئی جگہ پراُس نے دیکھا کہ جب بھی وہ بیس میں آنے کے لیے گارڈ روم سے گذرتا ہے تو ڈیوٹی پر کھڑا ایک سپاھی بہت زور سے سلیوٹ کرتا ہے۔ اس سپاھی کے سینے پر کمانڈو کا بیچ چمک رہا تھا اور اسکا سلیوٹ عام نہیں کچھ خاص ہوتا، ایسا سلیوٹ جوفرض سے آگے ہو، ایسا جیسے کچھ کہہ رہا ہو، جو گذر جانے کے بعد بھی ساتھ چلے، ایک قدم پیچھے، ہاتھ باندھے، آنکھیں جھکائے، جی جی کرتے۔ ایک دن اُسے اس سپاھی نے گارڈ روم پر روک لیا۔ 

"کیا، آپ مجھے جانتے ہیں؟"

"چہرہ جانا پہچانا لگتا ہے، شاید کہیں دیکھا ہے۔"

م"میں ملیر میں آٹھ سو میٹردوڑکےمقابلے میں آپکے مدمقابل تھا۔ نیا نیا کمانڈو کورس کرکے آیا تھا، ٹانگیں بہت مضبوط تھیں۔ اپنے اوپر بڑا اعتماد تھا،  قمیص کے کالراوپراورگریبان کے بٹن کھلے تھے۔ اُس دوڑ کے دن خیال تھا، یہ کون ہے؟ افسر، ہمارے مقابلے میں دوڑ، جانے دو۔ آج پتہ چل جائے گا، ہم تو دن کے کئی کئی میل دوڑنے والے ہیں۔ اور جب مقابلہ شروع ہوا تھا تو آپ کونہیں پہنچ پایا تھا۔ ہارگیا، مگر اس دوڑ کی یاد ہمیشہ کے لیے ساتھ ہے۔ اس دن کے بعد غرورکو کہیں دور رکھ دیا۔ دوڑ خوب لگاتا ہوں، اپنے اس کمانڈو بیچ پرفخر بھی ہے، مگر جان گیا ہوں کہ فخراورغرور الگ الگ ہیں۔ آپ کو اس بیس پر دیکھا تو دل خوش ہوگیا، آپ کو میرا سلیوٹ ہمیشہ اُس دوڑ کی یاد سے بے ساختہ تقویت لیتا ہے، کبھی زور نہیں لگانا پڑا، خود ہی جسم میں پھرتی بھرجاتی ہے۔ آپ کا میں بہت شکر گذار ہوں، آپ نے مجھے زندگی کا سبق اور یاد کی مہک دی"۔

کتابی کی کتابیں دھری کی دھری رہ گئیں۔ اسے گمان بھی نہ تھا کہ کوئی ایک آٹھ سو میٹرکی چھوٹی سی دوڑ سے زندگی کا اتنا بڑا سبق کشید کرلے گا۔ فخر اور غرور الگ الگ چیز ہیں، ایسا سبق تو لوگوں کوعمرکےاُس حصے میں جاکر سمجھ آتا ہے جب ٹانگیں لرزنا شروع ہو جاتی ہیں۔

   وہ جان گیا کہ یہ مضبوط ٹانگوں والا چھوٹے عہدے کا سنتری بڑا آدمی ہے۔ 

Copyright © All Rights Reserved :
No portion of this writing may be reproduced in any form without permission from the author. For permissions contact:
aatif.malikk@gmail.com

Comments

  1. The hunza wala gora is my dad. I can't beleive I am hearing my dad's adventures for the first time and that too on a blog. I need to ask dad about his adventures. Thank you so much for this! :)

    ReplyDelete

Post a Comment

Popular posts from this blog

Selection of Private Hajj Operators: Considerations

اشبیلیہ اندلس کا سفر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک تصویری بلاگ

کرٹن یونیورسٹی میں طالب علموں کی احتجاجی خیمہ بستی کا منظر