مامی کے مقدر میں رونا لکھ دیا گیا ہے
تحریر : عاطف ملک آج مامی فرحت پھر رو رہی ہے۔ اب تو یہ معمول ہی بن گیا ہے۔ پتہ نہیں کیوں اس کا نام ماں باپ نے فرحت رکھا تھا۔ نام بعض اوقات الٹ اثر رکھتے ہیں۔ مگر کیا نام میں کچھ ہوتا ہے، یا نصیب ہی سب کچھ ہوتا ہے۔ مامی کا نام کچھ بھی ہوتا، اب اس نے رونا ہی تھا۔ اس کے مقدر میں رونا لکھ دیا گیا ہے۔ پکے اسٹامپ پیپر پر، انمٹ سیاھی سے۔ اور سیاھی ایسی کہ خشک ہی نہیں ہوتی، مامی کے آنسووں کی مانند برس ہا برس سےگیلی۔ مامی کو پچھلے پانچ سال سے میں نے مسلسل روتے ہی دیکھا۔ پانچ سال سے پہلے بھی وہ روتی تھی مگر سب کے سامنے نہیں۔ اس کی آنکھیں بتاتی تھیں کہ وہ روتی ہے۔ آنکھیں بھی بچوں کی طرح ہوتی ہیں، کچھ چھپا نہیں سکتیں، سب بتا دیتی ہیں، بنا پوچھے، بغیر کسی سوال کے، کسی معصوم کی مانند۔ زبان جھوٹ بھی بولے تو آنکھیں سچ بول رہی ہوتی ہیں۔ اور مامی کی آ نکھیں؛ مامی کی آنکھیں تو ویسے بھی الگ تھیں، بڑی بڑی، اپنی طرف کھینچتی۔ جب میں نے اُسے پہلی دفعہ دیکھا تھا تو دیکھتا رہ گیا تھا۔ اور ویسے بھی یہ اُس کی شادی کا دن تھا، اورمیں شادی کا سربالہ۔ جب دولہا دلہن کو ساتھ بٹھایا گ...