ڈس کوالیفائیڈ ٹیم

تحریر : عاطف ملک

مصنف ایک دوڑ کے مقابلے میں

وقت رکا تھا، تھما ہوا، شاید ہوا چل رہی تھی یا شاید رکی تھی، شاید دھوپ تھی یا شاید  بادل سورج کے سامنے تھا، اُسے کچھ علم نہ تھا۔ اُس کے ماتھے پر پسینہ تھا، دونوں بھووں کو تر کرتا۔ اُس کا حلق خشک تھا، ابھی کچھ منٹ قبل ہی تو اُس نے پانی سے لب تر کیے تھے، یہ خیال کرتے کہ پانی زیادہ نہ پیے۔ یہ پانی پیاس بجھانے کے لیے نہ تھا، اُس لمحے پیاس بجھ بھی نہ سکتی تھی۔ اُس کے پیٹ میں درد تھا، دور سے کہیں اٹھتا، ہلکا مگرتمام پیٹ میں پھیلتا، مسلسل اپنا احساس دلاتا۔ یہ ہمیشہ ہوتا تھا، ایک اضطراب، اُسے علم تھا کہ اِس کا کچھ نہیں ہو سکتا۔

آس پاس شور تھا؛ شور- قریب و دور کے درمیان شور، بہت سے لڑکے اونچی اونچی آوازوں میں نعرے لگا رہے تھے، کچھ اس سے مخاطب تھے، اُس کا نام لے رہے تھے، مگر اُسے کچھ  سنائی نہیں دے رہا تھا۔ وہ معلق تھا، زمیں اور آسماں کے درمیاں کہیں معلق۔ کانوں میں شور، کچھ بے معنی اور کچھ معنی رکھتا، اور آنکھیں مرکوز تھیں، سامنے، عین سامنے۔

وہ جھکا تھا، زمین پر، ساکت، زمین سے پیوست ایک مجسمہ، دایاں گھٹنہ زمین پر ٹکا ہوا اور دائیں پیر کا پنجہ زمیں کو سختی سے نوکدارجوتوں، سپائیکس میں پیچھے کو دکھیلتا۔ اُس کے جوتے کا تلوہ زمیں سے عمودی تھا، اپنی شکل دکھاتا۔ بایاں پیر دائیں گھٹنےسے تھوڑا آگے زمین پر پورا رکھا ہوا ، نوکدار جوتا مکمل نشاں چھوڑتا زمیں سے جڑا، پورے تعلق کے ساتھ زمین سے جڑا تھا، اور اس بائیں پیر کے اردگرد دونوں ہاتھ انگلیوں کی پوروں سے زمیں کو دھکیلتے ہوئے جسم کا وزن اٹھائے تھے۔ وقت تھما سا تھا، اور وہ اس لمحے میں جی رہا تھا۔ اس وقت آواز گونجی، ریڈی۔ ایک ہاتھ بلند ہوا، یہ دوڑ شروع ہونے کے اعلان کے فائر کا لمحہ تھا۔ 

 یہ تبدیلی کا لمحہ تھا؛ نامحسوس انداز میں تناسخ، ایک نئی تشکیل، ایک نیا وجود، ایک نیا قالب ابھر رہا تھا۔ دایاں گھٹنہ زمیں سے الگ ہو کر معمولی اونچا ہوگیا، بائیں پیرکی ایڑھی اٹھ گئی اور وزن پنجے پرچلا گیا۔ جسم کا وزن دونوں ہاتھوں کی انگلیوں پر تھا۔ دونوں پیروں کے پنجے اورانگلیاں زمیں میں پیوست تھیں، تمام جسم کا وزن اٹھائے، کسی زمیں کو تیارکرتے کاشتکار کے ہل کی مانند زمین میں گڑی تھیں۔ سر اُٹھا ہوا، اپنے عمومی مقام سے اُٹھا ہوا، ایک نیا وجود سامنے تھا۔ اُٹھے سر پرآنکھیں سامنے مرکوز تھیں، نگاہیں سامنےدو سفید لائنوں  میں بتائی گئی راہ کے درمیان میں جمی ہوئیں، سامنے عین سامنے،  منہ کھلا ہوا، سانس گہرے، آس پاس مچے شو ر سے کہیں الگ سانس کی آواز، بالکل علیحدہ،  سانس کی آواز تھی کہ پھیلتی جاتی تھی، گراونڈ سے نکل کرعالم پر چھاتی ہوئی۔ یہ ایک جست بھرنے کو تیار جسم تھا، کڑی کمان سے نکلنے کو تیار تیر۔ اور اُس کی نظر کن انکھیوں سے مقابلے کے دوسرے دوڑنے والوں پر بھی تھی۔

اُس کے پیٹ میں درد تھا، اُس کے ماتھے پر پسینہ تھا، اس کا حلق خشک تھا، اس کا منہ کھلا تھا، اس کی سانس گہری تھی، اسکی آنکھیں سامنے مرکوز تھیں، سامنے عین سامنے۔ وقت رکا تھا، تھما ہوا، ہوا شاید چل رہی تھی یا شاید رکی تھی، شاید دھوپ تھی یا شاید  بادل سورج کے سامنے تھا، اُسے کچھ علم نہ تھا۔

  یہ لمحہ الگ لمحہ تھا، کسی ٹوٹتے جسم نشئی کا آخر کار حاصل کردہ بھرے سگریٹ کا کش لگانے سے قبل کا لمحہ، وصل سے قبل اضطراب کا بے چین لمحہ، روح کا جسم کی قید سے آزاد ہونے کا لمحہ ---- وہ لمحہ آزادی کے لمحے کا انتظار کرتا تھا، فائر کا انتظار کرتا لمحہ۔

سپیکر پر مختلف مقابلوں کے بارے میں  تسلسل سے اعلانات ہورہے تھے۔ چار سو میٹر فائنل دوڑ کے لیے پہلی کال، کچھ وقفے کے بعد دوسری کال اور آخر میں تیسری اور فائنل کال کا اعلان ہوا تھا۔ دوڑ  کے لیے شریک اتھلیٹس میدان میں اترچکے تھے۔ چارسو میٹر کی  دوڑ شروع ہونےوالی تھی، یہ اتھلیٹ وہ تھے جنہوں نے پچھلے دن اپنی اپنی متعلقہ دوڑیں جیتی تھیں۔ چار سو میٹر کی ایک دوڑ میں زیادہ سے زیادہ آٹھ اتھلیٹ شریک ہو سکتے ہیں کہ میدان میں آٹھ ٹریک سفید چونے کی لائینوں سے بنے تھے جن پران اتھلیٹس کو اپنے اپنے مقررہ راستوں پر بھاگنا تھا۔ ان راہوں کا تعین دوڑ سے قبل ایک قرعہ اندازی سے ہوتا۔ چار سو میٹر پورے گراونڈ کا ایک مکمل چکر ہے۔ پہلے سو میٹرمیں ٹریک مڑرہا ہوتا ہے، اگلے سو میٹر سیدھا، اگلا سو میٹردوبارہ خم دار اور آخری سو میٹر پھرسیدھا ہوتا ہے۔ اس بنا پر وہ اتھلیٹ جسے سب سے باہر کا ٹریک ملتا، اسے زیادہ فاصلہ طے کرنا پڑتا جبکہ سب سے اندرونی ٹریک والے کو سب سے کم فاصلہ طے کرنا ہوتا۔ اسی وجہ سے اتھلیٹس کو چار سو میٹر کی دوڑ میں برابر نہیں کھڑا کیا جاتا۔ سب سے باہر کے ٹریک میں دوڑتا اتھلیٹ سب سے آگے، اس کے ساتھ والے ٹریک والا اُس سے پیچھے اور اسی طرح باقیوں کی دوڑ کا  نقطہِ آغاز اپنے اپنے ٹریک میں بتدریج پیچھے ہوتا چلا جاتا ہے۔ اس دوڑ کے آغاز میں دوڑنے والوں کو اگر آپ ایک طرف سے دیکھیں تو وہ  ترچھے کھڑے نظر آتے ہیں۔ سب سے باہر کے دائرے میں کھڑا ہونے والا اتھلیٹ سب سے آگے ہوتا، جبکہ سب سے اندر والا سب سے پیچھے دوڑ شروع کرتا ہے۔ سب سے اندر والے کو فائدہ ہوتا کیونکہ وہ مقابلے کے تمام بھاگنے والوں پر شروع سے ہی نظر رکھ پاتا ہے۔ پیچھے ہونے کی وجہ سے وہ قدرتی طور پر مقابلے میں زور بھی زیادہ لگاتا۔ اس کے علاوہ جونہی وہ چکرکا موڑگھومتا تو دائرہ چھوٹا ہونے کی وجہ سے یک دم آگے آجاتا، سو اس بنا پر اندرکی لائنوں میں بھاگنا  فائدہ مند جانا جاتا ہے۔

جب اتھلیٹیس زیادہ ہوں تو فائنل مقابلے سے پہلے چناو کی دوڑیں ہوتی ہیں جنہیں ہیٹس کہا جاتا ہے۔  ان دوڑوں میں جیتنے والوں کا چناو اگلی دوڑ کے لیے ہوجاتا، سو اس بنا پر فائنل دوڑ میں دوڑنے والے بہتر ہوتے ہیں۔ اتھلیٹ گراونڈ میں وارم اپ کر رہے تھے، ہلکی رفتار میں ایک جانب سے دوسری طرف بھاگتے، اپنی کمر پر بازو جمائے ایک طرف سے دوسری طرف موڑتے، کھڑے ہوکر اپنے گھٹنوں کو باری باری دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر سینے کی طرف دباتے، زور ڈالتے۔ اُن میں سے کچھ  کسی اور مقابلے میں حصہ لیکرآئے تھے جیسے لانگ جمپ، ہائی جمپ وغیرہ اور اگلے مقابلے کے انتظارمیں تھے۔ وہ سفید نیکر اور رنگ برنگی بغیر بازوں کی بنیانیں پہنے تھے۔ بنیانوں کا رنگ ان کی ٹیم کا بتاتا تھا۔ سبز قائد ہاوس، سرخ اقبال ہاوس، نیلا لیاقت ہاوس اور زرد جوہرہاوس کا رنگ تھا۔ 

وہ جوان لڑکے تھے، عموماً پتلے دبلے، پھرتیلے، مضبوط ٹانگوں والے لڑکے۔ انکے جسم پسینے سے چمک رہے تھے، چہرے جسمانی مشقت سے سرخ تھے، اور جذبہ ان کے جوڑ جوڑ سے ٹپک رہا تھا۔ مقابلے کا جوش اُنکے چہروں سےظاہرتھا، شدت جو سورج کی شعاعوں کی طرح تماشائیوں میں بھی حرارت بھر رہی تھی۔ نتیجے سے قطعِ نظر زندگی ایک مقابلہ ہی ہے۔ منزل بے معنی ہے، پھیکی اور بے رنگ ہے اگر سفر نہ ہو۔ سفرہی سب کچھ ہے، دھول اڑاتا، بے یقینی کے ہمراہ، مضمحل کرتا، تھکاتا، قربانی مانگتا، اپنی تکمیل کے لیے جذبہ مانگتا۔ منزل تو سفر کی بخشیش ہے، دان، خیرات۔ منزل سفر تک ہی معنی رکھتی ہے، پہنچ جائیں تو بے وقعت ہو جاتی ہے۔ وہ کھلونا جسے  چند دن کھیل کر بچہ اپنے بسترکے نیچے پھینک دیتا ہے اور اگلے کھلونے کی خواہش دل میں بسا لیتا ہے۔

وہ اس دوڑ میں بہت جذبات سے شریک تھا؛ جذبہ، غصہ، غم سب ملے ہوئے تھے۔ یہ مقابلہ اُس کے لیے عام مقابلوں سے کہیں بڑھ کر تھا۔ دوڑ شروع ہونے سے قبل وہ ایک اور اتھلیٹ سے ملا جو کہ اس کے ساتھ اس فائنل دوڑ کے مقابلے میں شریک تھا۔ غیرمحسوس طریقے سے دونوں نے ہاتھ ملایا،  تماشائیوں کی نظروں کے سامنے، روزمرہ کا ایک مصافحہ، مگرجب وہ واپس مڑا تھا تواُس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی، ایک معنی خیز مسکراہٹ۔ یہ دوڑوں کے مقابلے سیدھے نہیں ہوتے، اس میں بہت چیزیں ہوتی ہیں، یہ سائنس اور آرٹ دونوں کا امتزاج ہے، یہ زور اور دماغ کا ساتھ ہے۔ اتھلیٹ فنکار بھی ہوتے ہیں، اپنے سانس، اپنے زور سے شاہکار بناتے۔

اس مقابلے کا تعلق ایک کل پیش آئے واقعہ سے تھا بلکہ اس کا تعلق اس سے پیچھے کے مقابلوں سے بھی تھا۔ جوانی ویسے ہی واقعات چاہتی ہے، کوئی ہلچل، کوئی زور آزمائی، کوئی چپقلش، کوئی قصہ، بے بنیاد، کسی وجہ کے بغیر قصہ جو زندگی میں ایک سنسنی لے آئے۔ سالانہ اتھلیٹیکس کے مقابلے اُن کے لیے بہت اہم تھے۔ اس میں سب کچھ تھا، جذبہ، مقابلہ، زور آزمائی، چپقلش، پسینہ، تھکن، ہارنے والے کا مذاق، جیتنے والے کا فخر، گلے میں لٹکتے میڈل اور سر سے اوپربلند کیا فتح کا کپ۔ ایسا ہیجان اور کس جگہ پراکٹھا ہوتا ہے؟

 یہ ایک بورڈنگ کالج تھا۔ ملک کی  مختلف جگہوں سے آئے لڑکے یہاں دن رات اکٹھے گذارتے تھے۔ اُن کا ساتھ طویل تھا، کالج کی مسجد میں دن بھر کی نمازیں، میس میں ناشتے اور دوسرے کھانوں پر، کلاسوں میں، شام کو مشترکہ پی ٹی سے لیکرمختلف کھیل کے میدانوں میں، امتحانوں کی اکٹھی تیاری میں، اُن کا ساتھ اکٹھا رہتا تھا۔ وہ ایک خاندان تھا، ایک پھیلا ہوا خاندان، مختلف رنگتوں، مختلف زبانوں، مختلف سوچوں، مختلف معاشرتی سطحوں اور پس منظروں پر پھیلا رنگا رنگ خاندان تھا، اورسالانہ اتھلیٹیکس کے مقابلے اس خاندان کا میلہ تھا۔ وہ قائد ہاوس کی اتھلیٹیکس ٹیم کا سب سے تجربہ کار ممبر تھا، یہ اُس کا کالج میں آخری سال تھا اور یہ اس کے آخری مقابلے بھی تھے۔ آج سے چار سال قبل جب وہ اپنے قصبے سے بورڈنگ سکول آیا تھا تو  اُسے ٹریک اور فیلڈ مقابلوں کا کچھ علم نہ تھا۔ بس اُسے یہ علم تھا کہ اماں نے اُسے کبھی چائے نہ دی تھی بلکہ ہمیشہ خالص دودھ  دیتے کہا تھا، "بیٹا ، دودھ پیا کر، تیرا جسم مضبوط ہو"۔ وہ ہنستا تھا، دودھ ویسے بھی اُسے پسند تھا، اوراسکی ٹانگیں مضبوط تھیں۔ کالج میں پہلے سال کے مقابلوں میں جب وہ دوڑا تھا تو اس نے اتنی جان لگا دی تھی کہ دوڑ کے ختم ہونے کے بعد زمین پر بیٹھا تھا تو دونوں ٹانگیں بے اختیار کانپ رہی تھیں، اوراُس وقت  گرمی کے باوجود کسی نےاُسکے جسم پر کمبل ڈالا اور دو  لڑکے اُس کو دبا رہے تھے۔ یہ ایک خاندان تھا، قائد ہاوس کی اتھلیٹیکس ٹیم کا خاندان، اور اب اسے اگلی دوڑ دوڑنی تھی، اپنے اس خاندان کے لیے یہ دوڑ جیتنا تھی۔ 

  یہ مقابلے بڑا زور لیتے تھے؛ خوراک، تیاری، پلاننگ اورمقابلوں کی سمجھ  بوجھ سب مل کر جتاتے تھے۔ پچھلے ایک ماہ سے اتھلیٹیکس ٹیم خصوصی خوراک پر تھی۔ رات سونے سے قبل ٹیم میس میں اکٹھی ہوتی۔ خصوصی خوراک؛ دودھ، گرم انڈے، اولٹین، جوس سب کھایا پیا جاتا تھا کہ مقابلے طاقت مانگتے تھے۔ ویٹرچاچے اکرم نے اس بورڈنگ کالج میں پچھلے کئی سالوں میں ایک کے بعد ایک ایسے لڑکوں کی تیاری دیکھی تھی، مقابلے کی تیاری، زندگی کا دائرہ ان لڑکوں کے لیے سمٹ کر اس اتھلییٹکس کے نقطے پر آجاتا تھا۔ پڑھائی، امتحانات، ملکی حالات، سینے میں کہیں دور سراٹھاتی محبتیں سب اپنا مقام اِن دنوں کھو دیتیں۔ چاچا اکرم خود بھی ایک دانشور تھا، کھانے کی میزوں پر ڈشیں لگاتا دانشور، کبڈی کے کھلاڑی سے دانشوری تک کا سفراس نے زندگی کی حقیقتیں جان کرکیا تھا۔ اکرم سالہا سال سے میس میں ویٹر تھا اور اپنی نوکری کے پہلے سال سے اسکی کوشش ہوتی کہ جب یہ مقابلوں کا موقع آئے تو وہ ان اتھلیٹس کے قریب ہو، کبھی روٹی رکھتے، کبھی پانی رکھتے، بہانے سے اُن کے قریب کھڑے ہو کرانکی باتیں سنے۔ انکی باتیں، انکی پلاننگ سب اسے خوشی دیتی تھیں۔ وہ ان لڑکوں کو دیکھتا تو اُسے اپنے گاوں کے کبڈی کے مقابلے یاد آجاتے۔ بجتا ڈھول، دیوانہ وار بجتا اوراس پر ناچتے، دیوانہ وار ناچتے اُس کے دوست، وہ ان لڑکوں کے حال سے اپنا ماضی کشید کرتا تھا۔

اُس اتھلیٹ کو پچھلے سالوں کی دوڑوں کے مقابلوں کے تمام کھلاڑیوں کا علم تھا۔ ہرایک کی رفتار، پوزیشن وہ سب جانتا تھا۔ اِس سال کا مقابلہ سخت تھا۔ کئی ہفتوں سے ٹیم صبح صبح کالج جانے سے قبل اٹھ کر گراونڈ میں ورزش کرتی، دوڑ لگاتی۔ ٹیم پیچھے ہوتی وہ آگے انکی ورزش کرواتا۔ آگے کو دوڑتے،  پھر دوڑتے دوڑتے دونوں  ہاتھوں سے باری باری زمین کو  چھوتے، یک دم رک کرسمت تبدیل کیے بغیر پیچھے کوالٹا دوڑتے، رکتے اور پھر مڑے بغیر دائیں طرف کو قدموں پر اچھلتے چلے جاتے، سائیڈ پر کبھی دائیں، کبھی بائیں اچھلتے چلے جاتے، جسم گرم ہوجاتا، چہرے پسینہ پسینہ ہوجاتے۔ اس کے بعد ہر لڑکا اپنے اپنے ایونٹ کی تیاری میں لگ جاتا۔ یہ محنت کئی ہفتوں سے جاری تھی۔ شام کو زیادہ زور مقابلے کی تیاری کا ہوتا۔ لمبی دوڑوں والےاتھلیٹس گراونڈ کے ارگرد کئی چکر لگارہے ہوتے، تیز دوڑوں والے گراونڈ  کے ایک جانب سٹارٹ کی پریکٹیس سے لیکر پوری دوڑ مکمل کررہے ہوتے۔ ٹائمنگ نوٹ کی جاتیں، آپس میں گفتگو ہوتی۔ مخالف اتھلیٹوں کے ٹائمنگ بھی نوٹ کر لیے جاتے۔ اپنی قابلیت اور کمزوریوں کی بات ہوتی، حریف کی استعداد کو ناپا جاتا، منصوبے بنتے۔ غرض زندگی کا دائرہ ان دںوں سمٹ کر صرف ان اتھلییٹکس کے مقابلوں کے اردگرد تھا۔ 

اُس کا ایونٹ چار سو میٹر کی دوڑ تھی۔ چار سو میٹر کی دوڑ تمام دوڑوں کی ملکہ ہے، کوئین آف دی ریسیز کہلاتی ہے۔ اِس میں دوڑنے کی سکت یعنی سٹیمنا اور رفتار دونوں چاہیئے ہوتی ہیں۔ سو میٹر کی دوڑ میں رفتار بنیادی چیز ہے، اِدھر دوڑ شروع  ہوئی اُدھر ختم بھی ہوگئی۔ چار سو میٹر کی اپنی تکنیک ہے۔ دوڑ کے آغاز میں ایک مناسب رفتار رکھیں، سو میٹر تک آرام سے بھاگیں۔ اگر کوئی مقابلے کا شریک بگٹٹ بھاگ رہا ہے تو پریشان نہ ہوں، آخرمیں اسکی ہوا نکل جائے گی اور ٹانگیں جواب دے جائیں گی۔ ایک تجربہ کار اتھلیٹ کو اپنے مدمقابل کا اندازہ ہوتا ہے، سو پہلے سو میٹر آرام سے بھاگیں مگر اپنے بہترین مدمقابل کو نظر میں رکھیں کہ وہ اتنا  فاصلہ نہ بڑھا جائے کہ آخرمیں پکڑا نہ جاسکے۔ پہلے سو میٹر کے بعد اگلے سو میٹر  میں رفتار مقابلتاً زیادہ ہونی چاہیئے مگر ابھی بھی پوری جان نہیں لگانی چاہیئے۔ یہ دوڑ کا خوبصورت ترین منظرہوتا ہے، دلکش، نظروں کو لبھاتا۔ لمبے قدم، ایک تسلسل میں بھاگتے ہوئے، ایک عجب ردھم، نہ اندھادھند تیزی نہ کاہلی، یوں جیسے قدرت کے کسی بے آواز ساز کی لے پر بےاختیار  ناچتے دوڑتے قدم ہوں، سر کندھوں پر ہلکا سا جھکا ہوا کہ ٹریک پر نظر، کمرسیدھی، جسم کا وزن پاوں کے پنجوں پر، سپائیکس کی نوکیں مٹی کواکھیڑتی پیچھے کو پھینکتی اور لمبے قدم، ایک ردھم میں، بھاگتے قدم تسلسل میں آتے، کیا کسی درویش کا رقص ہوگا، یہ صحرا میں بے پروا آہو کا خرام  ہے۔ خدا خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسند کرتا ہے، اور اس وقت رب اتھلیٹیکس فیلڈ میں نظر آتا ہے۔ 

اصل چار سو میٹر کی دوڑ دو سو میٹر کے بعد شروع ہوتی ہے، بل کھاتے ٹریک پراب طاقت لگائی جاتی ہے۔ ادھر آخری دو سو میٹر آئے اور رفتار کی تیزی نظرآنے لگ جاتی ہے۔  مگر یہ خیال کرکے کہ آخری سو میٹر، جہاں ٹریک سیدھا ہوجاتا ہے اور دوڑ ختم کی ڈوری لگی ہوتی ہے، وہ اصل مقابلے کا وقت ہے۔ جیسے ہی آخری سو میٹر کا فاصلہ آتا ہے، اتھلیٹ کو اپنی تمام طاقت لگا دینی ہے، پوری، مکمل، سب طاقت خرچ کردینی ہے۔ مقابلے کا جذبہ، اپنے اندر سے اٹھتی آواز، سب کو جمع کرتےاپنے ختم شدہ جسم کو  آخری لائن سے گذارنا ہوتا ہے۔ جسم جواب دے رہا ہوتا ہے، مگراندرسے آتی آواز اُسے بھگاتی ہے۔ اپنی طاقت کا آخری قطرہ بھی یہاں استعمال کر دینا ہے۔ اس موقع پر قدم کہیں رکھا جاتا ہے، پڑتا کہیں اور ہے۔ ٹانگیں جسم کا وزن اٹھانے سے عاجز ہو رہی ہوتی ہیں۔

پہلے دن کے مختلف مقابلوں میں چار سو میٹر کی دوڑ کی ہیٹس تھیں، فائنل مقابلہ اگلے دن ہونا تھا۔ پہلے دن کا آخری ایونٹ چار سو میٹر کی ریلے ریس تھی۔ اس میں چار اتھلیٹس باری باری چار سو میٹر بھاگتے ہیں۔ ہر ٹیم کے کھلاڑی کے ہاتھ میں ایک ڈنڈا جسے بیٹن کہتے ہیں، ہوتا ہے جو اُس نے اگلے بھاگنے والے کو پکڑانا ہوتا ہے،اس کو حاصل کرنے کے بعد ہی اُس ٹیم کا اگلا اتھلیٹ بھاگ سکتا ہے۔ 

اپنے مخالف جوہر ہاوس کی ٹیم کے لحاظ سے انہوں نے چار سو میٹر کی ریلے دوڑ کی بھرپور منصوبہ بندی کی تھی۔ اُس دن کی چار سو میٹر کی انفرادی ہیٹس میں ٹیم نے دو اتھلیٹس ڈالے تھے۔ وہ خود، ایک تجربہ کار اور مضبوط  اتھلیٹ کے طور پر اور ریحان، جس کی ان مقابلوں میں پہلی شرکت تھی، وہ دونوں چار سو میٹر کی انفرادی ہیٹس بھاگ رہے تھے۔ ہاوس کی پریکٹس دوڑوں میں وہ ریحان سے آگے نکل جاتا تھا۔ ریحان کو اُس نے بتایا کہ ہیٹس میں صرف کوالیفائی کرنا ہے، آرام سے دوڑنا ہے، طاقت بچا کر رکھنی ہے، تیسری پوزیشن تک آجائیں کہ اگلے دن کے فائنل مقابلے کے لیے سلیکٹ ہوجائیں،  اگلے دن اصل مقابلے کے وقت جان لگائیں گے۔ پہلے دن کا اصل مقابلہ دن کا آخری مقابلہ تھا جو چار سو میٹر کی ریلے ریس تھا۔

جوہر ہاوس کے ساتھ انکا مقابلہ سخت تھا۔ مخالف ٹیم میں اچھے اتھلیٹ تھے، شاید اس وقت کا سب سے بہتر اتھلیٹ عادل اس ٹیم میں شامل تھا۔ اس کے علاوہ ایک اور طاقتور مدِمقابل عرفان بھی تھا، چار سو میٹر ریلے کی ٹیم کے دوسرے دو ممبران کا بھی انہیں علم تھا، اچھے تھے مگرانہیں ہرانا مقابلتاً آسان تھا۔ قائد ہاوس کی ٹیم میں وہ خود تھا، مقابلتاً ناتجربہ کار ریحان،  تیسرا اتھلیٹ عمران حیدر جو کہ پتلا دبلا اور تیز رفتار تھا۔ عمران بنیادی طور پر سو میٹر کی رکاوٹوں والی دوڑ، ہرڈلز بھاگتا تھا۔ اُس نے پہلے دن سو میٹر کی ہرڈلز کی دوڑ کو کوالیفائی بھی کرنا تھا۔ انکی ٹیم کا چوتھا اتھلیٹ ارشد بٹ تھا۔ گجرانوالہ کا ارشد بٹ، لمبا تڑنگا جذباتی اتھلیٹ تھا۔ بٹ اُس سے ایک سال پیچھے تھا، دونوں کی یاری تھی۔ کئی مقابلے انہوں نے اکٹھے دوڑے تھے۔ بٹ ایک سر پھرا اتھلیٹ تھا، اُسے دوڑ سے پہلے جذبات میں لے آو، چارج کردو، پمپ سے جذبات بھر دو، پھردیکھو اُس کی دوڑ، مرتا مرجائے گا مگر رکے گا نہیں۔ لوگوں نے اُسے الٹیاں کرتے دوڑتے دیکھا۔ طبیعت خراب ہے، الٹیاں کر رہا ہے، مگر رک نہیں رہا بھاگے چلا جارہا ہے۔
  مقابلہ دل کے جذبے سے ہوتا ہے، باقی جسم تو ایک غلام  ہے۔

 انہوں نے جوہر ہاوس کی مضبوط ٹیم کے مقابلے کے لیے منصوبہ بنایا۔ بٹ کو کسی انفرادی مقابلے میں نہیں بھگایا جائے گا، وہ تازہ دم رہے گا کیونکہ وہ انکا ترپ کا پتہ تھا۔ دن کے انفرادی مقابلوں میں ریحان، عمران اور اُس نے کوالیفائی کرلیا۔ جیسے ہی وہ دوڑ ختم کر کے آئے، انہیں کمبلوں میں لپیٹ دیا گیا، اور دو تین لڑکے ان کو خوب دبا رہے تھے تاکہ وہ اگلی دوڑ کے لیے تیار ہوجائیں۔ سب کو علم تھا کہ انہوں نے ریلے ریس بھاگنی ہے اور اُس دن کی چار سو میٹر کی ریلے ریس کا سب کو شدت سے انتظار تھا۔

آخر کار چار سو میٹر کی ریلے ریس کا اعلان ہوا۔ چاروں ہاوسز کی ٹیمیں میدان میں آگئیں، مگرسب کوعلم تھا کہ اصل مقابلہ قائد ہاوس اور جوہرہاوس کے درمیان ہے۔ قائد ہاوس کی طرف سے عمران دوڑ کا آغاز کر رہا تھا۔ وہ تجربہ کار اتھلیٹ تھا، کئی دوڑیں دوڑا تھا، پریشر برداشت کرنا جانتا تھا اور اس دوڑ کی تکنیک سے بخوبی واقف تھا۔ تماشائیوں کی نظریں دوڑ کے آغاز کےلیے جھکے اتھلیٹوں پر تھیں۔ اپنی کرسیوں کے کناروں سے اٹھتے ہوئے وہ آگے ہو ہو کر دیکھ رہے تھے، انہیں علم تھا کہ وہ ایک معرکہ دیکھنے جارہے ہیں۔ 

مقابلے کا آغاز ہوا، فائر ہوتے ہی چاروں ہاوسز کی ٹیمیں بھاگیں۔ قائد ہاوس کی طرف سے سب سے پہلے عمران بھاگا۔ اُس کے ہاتھ میں سبز رنگ کا بیٹن تھا۔ شروع میں مقابلے کی رفتار ہلکی تھی، پہلے سو میٹر چاروں اتھلیٹس تقریباً برابر ہی بھاگ رہے تھے۔ سو میٹر کے بعد عمران آگے نکلنے لگا۔ جوہر ہاوس کے اتھلیٹ نے اُسے نظر میں رکھا ہوا تھا اور اس کی رفتار بھی تیز ہوگئی۔ دو سو میٹر کے موڑ پر تماشائی دو اتھلیٹیس کو ایک ساتھ آگے بڑھتے دیکھ رہے تھے، جبکہ دوسرے ہاوسز کے دونوں اتھلیٹ پیچھے رہتے جارہے تھے۔ آخری سو میٹر آئے اور عمران کو علم تھا کہ یہ مقابلے کا اصل وقت ہے۔ دونوں اتھلیٹ برابر تھے،  وہ پورا زور لگا رہے تھے، ان کے منہ کھلے تھے اور ان کے سانسوں کی آواز بلند تھی، ان کے سینے جل رہے تھے، دونوں کی رفتار بہت تیز نہ تھی، ٹانگیں رکتی تھیں، جسم ٹوٹتا تھا، تماشائیوں کا شورتھا، بھاگو بھاگو، وہ دونوں رک گئے ہوتے مگر مقابلے کا جذبہ انہیں بھگا رہا تھا۔ جذبہ ہی استعداد سے کہیں بڑھ کر کام کرا دیتا ہے۔ آخری پچاس میٹر رہ گئے اورعمران دو قدم آگے نکل گیا۔ انہیں دو قدموں کی سبقت سے اس نے بیٹن ریحان کےحوالے کیا۔

تما شائی ایک دفعہ پھر اگلے چکر کی طرف متوجہ تھے۔ ریحان کو دو قدموں کی سبقت ملی تھی اور وہ اس سبقت پر بھاگ رہا تھا۔ وہ چار سو میٹر کا ایک نیا اتھلیٹ تھا سو اس وجہ سے قائد ہاوس کے تجربہ کار اتھلیٹوں نے اُسے اس دوڑ کی تکنیک پوری طرح سمجھائی تھی، مگر پھر بھی ڈر تھا کہ مقابلے کا جوش اُس کے ہوش پر حاوی نہ ہوجائے۔ سب کی نظریں اس چکر پر تھیں۔ ریحان سے دو قدم پیچھے جوہر ہاوس کا بھاگتا کھلاڑی تھا، دونوں ایک ہم آہنگی میں بھاگ رہے تھے، دونوں کے قدم ساتھ ساتھ اٹھتے اور بازو ساتھ ساتھ حرکت کر رہے تھے۔ مقابلے کے دوسرے شرکاء پیچھے رہتے جارہے تھے۔ ریحان نوآموز ہونے کے باوجود  اچھا دوڑا، اس نے دو قدموں کی سبقت کو محفوظ رکھا اور بیٹن آ کر اُسے دی۔

اگلے دونوں چکر دوڑ کے اہم ترین تھے، اُن پر ہی دوڑ کا فیصلہ ہونا تھا۔ وہ دوڑا تو اس سے دو قدم  پیچھے جوہر ہاوس کا عادل تھا۔ اُسے عادل اپنے سر پر محسوس ہو رہا تھا، بالکل ساتھ، اس کے سانسوں کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں، دھونکنی کی طرح، ایک ردھم میں گونجتیں۔ اس نے اپنی نگاہیں  سامنے لگی چونے کی سفید لائنوں پر مرکوز رکھی تھیں، وہ  اندرونی لائن کے بالکل متصل دوڑ رہا تھا۔ ایک دائرے میں بھاگتے یہ تھوڑے فاصلے کی بچت بھی اس دوڑ میں بہت ہوتی ہے۔ وہ پیچھے مڑ کرنہیں دیکھ سکتا تھا۔ یہ دوڑ کے مقابلوں کا اصول ہے کہ کبھی پیچھے مڑکر نہ دیکھو۔ نظر آگے رکھو، دوڑ میں بے یقینی نقصان نہیں فائدہ ہے۔ گمان کہ مقابلہ سخت ہے، مخالف پہنچ رہا  ہے، گمان کہ میں یہ مقابلہ جیت سکتا ہوں، یہ گمان ہی ہے کہ بےجان ہوتی ٹانگوں میں زندگی دوڑا دیتا ہے۔ زندگی  کے بارے میں کبھی سوچیں تو علم ہوتا ہے کہ دوڑ کی طرح یہ بھی گمان پر ہی چلتی ہے۔ گرشکست کا گمان حاوی ہو تو کھلاڑی میدان میں اتر بھی آئے تو مقابلے میں نہیں اترا ہوتا۔ دوسری جانب لوگ ایک احساس پر، ایک خیال پر، ایک نظریہ پر، ایک فکر پر، ایک گمان پر ساری عمر تج دیتے ہیں۔ گمان بے جان ہوتے جسم میں زندگی بھرلاتا  ہے۔

دوڑ کے دو سو میٹر گذر چکے تھے۔ عادل اور وہ دونوں ساتھ ساتھ  دوڑ رہے تھے جبکہ دوڑ کے باقی شریک کہیں پیچھے رہ گئے تھے۔ تماشائی اپنی جگہوں پر بے چین تھے، ان میں سے بعض کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ بھی بھاگ کر دوڑ میں شریک ہو جائیں۔ ہارجیت اپنا معنی کھو بیٹھی تھی۔ جدوجہد  کی خوبصورتی یہی ہے کہ شفاف ہو تو ہار کر بھی جیت ہے۔ دوڑتے وہ دونوں تین سو میٹر کےخم دار موڑ سے نکلتے سیدھے ہو رہے تھے۔ وہ دونوں سیدھے ہوتے راستے پر برابر تھے۔

  اُسے محسوس ہوا کہ عادل اُس تک پہنچ گیا ہے، شاید لمحہِ رواں میں وہ اُس سے آگے نکل جائے۔ اُس ساعت اس نے ایک نعرہ لگایا، ایک نعرہِ بےاختیار، ایک نعرہ جو باہر کے لیے نہ تھا، وہ نعرہ اس کے اندر گونجا اوراس گونج نے اسکی ٹانگوں کو طاقت دی کہ وہ ان دو قدموں کی برتری کو برقرار رکھ سکا۔

اب بیٹن ارشد بٹ کے ہاتھ میں تھی اور وہ دوڑ کا آخری چکر مکمل کررہا تھا۔ اس سے دو قدم پیچھے جوہر ہاوس کا عرفان تھا۔ دونوں تازہ دم ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ بھاگ رہے تھے۔ تین سو میٹر مکمل ہوئے اور بٹ آگے تھا۔ اب سو میٹر باقی تھے، اب پچھترمیٹراوراب پچاس میٹر، بٹ اب بھی آگے تھا اوراس سے دو قدم پیچھے عرفان تھا۔ پچیس میٹر اورساتھ ہی دوڑ کا عجب موڑ ایک دم  سامنے آگیا۔ بٹ فنش لائن سے پانچ میٹر پیچھے گرگیا تھا۔ آخری پانچ میٹر اور بٹ زمین پر گرا پڑا تھا۔ تماشائیوں کا شورایسا کہ کچھ سنائی نہ دیتا تھا، کھلاڑی ششدر تھے۔ عرفان فنش لائن پار کر گیا تھا۔ جوہر ہاوس دوڑ جیت چکا تھا۔ بٹ اٹھا اورچلتے ہوئے فنش لائن عبور کر گیا۔ دوڑ میں
 تیسرے نمبر پرآتا اتھلیٹ ابھی بھی کہیں دور تھا۔
 
 بٹ نے فنش لائن تو پار کرلی تھی اور ٹیم اس کے گرنے کے باوجود  دوسرے نمبر پر تھی مگراس گرنے اٹھنے، تماشائیوں کے شور اور ہنگامے میں لکڑی کا بیٹن وہیں رہ گیا تھا، اسی جگہ پر جہاں وہ گرا تھا، فنش لائن سے پانچ میٹر پہلے دو چونے کی لکیروں کے درمیان زمین پر اکیلا افسردہ پڑا تھا۔ دوڑ کے ججز نے اس لکڑی کے ٹکڑے کو وہاں پڑا دیکھا اور ٹیم ڈس کوالیفائی کرنے کا اعلان کردیا۔

وہ آگے بڑھا اور بٹ کو گلے سے لگا لیا۔ بٹ رو رہا تھا۔
بٹ ایسا ہو جاتا ہے، کوئی بات نہیں"۔"
کیا اب رووں بھی نہ"۔" 
اس نے سوچا، یہ کیوں ہے کہ مرد کو رونے بھی نہیں دیا جاتا۔ رونا کیا کمزوری کی نشانی ہے یا نشانی ہے کہ احساس ابھی زندہ ہے۔ کیا آنسو کمزوری ہیں یا  زندگی کا نشاں، آنسو کیا ہیں؟

وہ جو دوڑ جیت رہے تھے، جیتتے جیتتے بالکل ہی بے نام ہوگئے۔ تمام محنت، تمام زور، تمام جدوجہد کے باوجود وہ ہار گئے تھے۔ ویٹر چاچا اکرم جو تماشائیوں کی نشسستوں کے ساتھ کھڑا یہ سب دیکھ رہا تھا۔ ہنس پڑا، یہ زندگی ہے۔ بعض دفعہ سخت محنت، پسینے، جدوجہد کے باوجود بھی منزل نہیں ملتی۔ بالکل سامنے پہنچ جانے کے بعد، ہاتھ کی گرفت میں ہوتے ہوئےبھی، ریت کی طرح ہاتھ کی گرفت میں سے منزل پھسل جاتی ہے۔ دیکھتے دیکھتے، ہاتھ میں ہوتے ہوئے بھی آپ پکڑ نہیں سکتے، سنبھال نہیں سکتے، آپ کچھ نہیں کرسکتے۔ چاچا اکرم ہنس پڑا، دانشور چاچا اکرم، کھانے کی میزوں پر ڈشیں لگاتا دانشور چاچا اکرم ہنس پڑا۔

اور جب وہ رات کو میس میں کھانا کھا رہا تھا تو چاچا اس کے پاس آیا۔ کہنے لگا، مقابلہ ابھی ختم نہیں ہوا بلکہ مقابلہ اب شروع ہورہا ہے۔ گرنے کے بعد گر کراٹھنا کھلاڑی کا بتاتا ہے۔ زندگی کی دوڑ لمبی ہے، کئی دفعہ گرو گے، اصل کھلاڑی گر کے پھر اٹھتا ہے، دوبارہ مقابلے کے لیے۔ خوش رہ، یہ لے تیرے لیے دو انڈے علیحدہ ابال کرلایا ہوں۔

 اگلا دن تھا۔ چار سو میٹر کی انفرادی دوڑ کے فائنل کے لیے وہ میدان میں اتر چکا تھا۔ کل کے واقعہ کی بنا پر وہ اس دوڑ میں بہت جذبات سے شریک تھا؛ جذبہ، غصہ، غم سب آپس میں ملے ہوئے تھے۔ رات وہ سو نہ پایا تھا۔ یہ مقابلہ اُس کے لیے عام مقابلے سے کہیں بڑھ کر تھا۔

دوڑ سے قبل انفرادی لائنوں کے لیے قرعہ اندازی ہوئی، ہر بھاگنے والے نے ایک ایک پرچی نکالی جس پر لکھا نمبر میدان میں اس کے ٹریک کا تعین کرتا تھا۔ وہ ریحان سے ملا جو کہ اس کے ساتھ اس فائنل دوڑ کے مقابلے میں شریک تھا۔ غیر محسوس طریقے سے دونوں نے ہاتھ ملایا، تماشائیوں کی نظروں کے سامنے، روزمرہ کا ایک مصافحہ، جب وہ واپس مڑا تھا تو اُس کے چہرے پر مسکراہٹ تھا، ایک معنی خیز مسکراہٹ۔ یہ دوڑوں کے مقابلے سیدھے نہیں ہوتے، اس میں بہت چیزیں ہوتی ہیں، یہ سائنس اور آرٹ دونوں کا امتزاج ہے، یہ زور اور دماغ کا ساتھ ہے۔ اتھلیٹ فنکار بھی ہوتے ہیں، اپنے سانس، اپنے زور سے شاہکار بناتے۔

کسی کے علم میں آئے بغیر دونوں نے اپنے ٹریک کے نمبروں کی پرچیاں بدل لی تھیں۔ یہ منصوبہ انہوں نے رات ہی بنا لیا تھا۔ وہ ریحان سے بہتر دوڑتا تھا سو اُسے اندرونی  لائنوں پر دوڑنا تھا۔ اوراتفاق یہ ہوا کہ اس کو آٹھویں نمبر کی پرچی ملی تھی، سب سے باہر کا ٹریک جو اس دوڑ میں اچھا نہیں سمجھا جاتا ۔ ریحان کے پاس پہلے نمبر کی پرچی تھی، سب سے اندر کا ٹریک، اور دونوں کے مصافحے میں پرچیاں بدل گئی تھیں۔

اورجب وہ دوڑ کے لیے جھکا تھا تو اسے کن اکھیوں سے تمام مخالف اتھلیٹ نظر آرہے تھے، اس کے دائیں طرف، سب اس سے آگے ایک ترچھی لائن میں بھاگنے کے لیے تیار۔ یہ دوڑ اس کے لیے بہت اہم تھی، گر کے اٹھ کے دوبارہ دوڑنے  کی دوڑ، ایک اصل کھلاڑی ہونے کا ثبوت دیتی دوڑ۔

اُس کے ماتھے پر پسینہ تھا، دونوں بھووں کو تر کرتا۔ اُس کا حلق خشک تھا۔ اس کے پیٹ میں درد تھا، دور کہیں سے اٹھتا، ہلکا مگر تمام پیٹ میں پھیلتا، مسلسل اپنا احساس دلاتا۔ اس کے کانوں میں شور سنائی دے رہا تھا، تماشائیوں کا بے معنی شور۔

اور اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی۔

ختم شد۔ 



Copyright © All Rights Reserved :
No portion of this writing may be reproduced in any form without permission from the author. For permissions contact:
aatif.malikk@gmail.com




Comments

Popular posts from this blog

Selection of Private Hajj Operators: Considerations

کیااتفاق واقعی اتفاق ہے؟

اشبیلیہ اندلس کا سفر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک تصویری بلاگ