مسافر کی روداد
تحریر : عاطف ملک وہ ایک ادھیڑ عمر آدمی تھا، ادھیڑ عمر اور شرارتی۔ کلین شیو، سر سے گنجا، بھاری جسم اور مسکراتا چہرہ۔ جیسے ہی اُس نے بات شروع کی تھی، مجھے علم ہوگیا تھا کہ وہ ایک شرارتی آدمی ہے۔ اس کی آنکھوں میں چمک اور چہرے کی مسکراہٹ اس کا بتا رہی تھی، مسجد کے لاوڈ سپیکر سے ہوتے اعلان کی طرح چاروانگ شور مچاتی۔ آنکھوں میں چمک اصل میں زندگی ہے۔ بچوں کی آنکھوں میں جھانکیے، جوانی کو چھوتے لڑکے لڑکیوں کی آنکھوں میں دیکھیے، ادھیڑ عمروں کی نگاہوں پر نظر ڈالیں، کچھ بوڑھے بھی مل جاتے ہیں کہ نظر بےشک کمزور ہو گئی ہو مگر آنکھ کی چمک زندہ ہوتی ہے۔ ایسوں کے ساتھ بیٹھ جائیے، یہ کچھ نہ کچھ نکالیں گے۔ یہ سپیرے ہیں، بین بجائیں یا نہ بجائیں اپنی پٹاری سے کچھ ایسا نکالیں گے کہ حیران کردیں گے۔ وہ میرے سامنے بیٹھا تھا مگر مجھ سے بات نہیں کر رہا تھا بلکہ میز پر میرے ساتھ بیٹھی گردن تک کٹے گھونگریلے بالوں والی پُروقار خاتون سے بات کررہا تھا، گوری، نازک سی عینک لگائے پرُاعتماد خاتون۔ مجھے صاف نظر آرہا تھا کہ وہ شرارت کر رہا ہے، کسی لغویت یا بےہودگی کے بغیر بس ایک شرارت، اس...