پراسرار رات
تحریر : عاطف ملک کسی نے پیر پر ٹھڈا مارا اور کہا، " اٹھ عثمان اٹھ، باقی لوگ پہنچ رہے ہیں، اٹھ ابھی اگلا سفر پڑا ہے، اور دیکھ سڑک کے ایک طرف ہو کر لیٹا کر، کسی گاڑی کے نیچے آکر مارا جائے گا"۔ مجھے علم نہیں ہے کہ کتنے ٹھڈے مارے گئے تھے، اور کون تھا جس نے ٹھڈے مارے تھے۔ یہ جو ڈائریکٹلی مولڈیڈ سول جوتے جنہیں عام زبان میں ڈی-ایم-ایس شوز کہتے ہیں، انکا سول اتنا موٹا ہوتا ہے کہ ان پر ٹھڈے مارو بھی تو کوئی فرق نہیں پڑتا، نہ مارنے والے کو اور نہ ہی جسے مارا جاتا ہے۔ سونے والا سویا ہی رہتا ہے ۔ سنا تھا کہ کھال موٹی ہو تو کسی بھی چیز کا اثر نہیں ہوتا، یہ ڈی-ایم-ایس موٹی کھال کےجوتے ہیں۔ میں اٹھ گیا تھا، مگر شاید نہیں اٹھا تھا، یا شاید جھٹ اٹھ پڑا تھا۔ جب پتہ ہو کہ سفر ابھی باقی ہے تو سویا ہوا بھی جاگا ہی ہوتا ہے۔ مگر جاگ کر بھی مجھے لگ رہا تھا کہ میں سویا ہوا ہوں، خواب اور حقیقت کے درمیان کہیں لٹکا ہوا ہوں۔ میرے پیروں کو ڈی-ایم-ایس جوتوں کی عادت ہوگئی تھی، کسی ناخوشگوار ساتھ کی مانند جس سے چھٹکارا نہ پایا جاسکے اور پھر کچھ عرصے بعد بک بک جھک ...